اطہر مسعود وانی
ہر سال10دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی دن اس عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ دنیا کے تمام خطوںمیں بسنے والے تمام انسانوں کے انسانی حقوق کے بلا امتیاز تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔اس دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1948 میں انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ (UDHR) منظور کیا تھا جوایک سنگ میل دستاویز ہے،جس میںان ناقابل تنسیخ حقوق کا ا حاطہ کیا گیا ہے جن کا ہر شخص قطع نظر نسل، رنگ، مذہب، جنس، زبان، سیاسی یا دیگر رائے، قومی یا سماجی اصل، جائیداد، پیدائش یا دیگر حیثیت بطور انسان حقدار ہے ۔انسانی حقوق کے عالمی عہد کی روشنی میں جب ہندوستا ن کے زیر اتظام ریاست جموں وکشمیر کو دیکھا جائے تو انسانی حقوق کے حوالے سے بدترین صورتحال نظر آتی ہے۔27اکتوبر1947کو ریاست کشمیر میں ہندوستانی فوج کے داخلے کے ساتھ ہی ریاست کے باشندگان کے خلاف قتل و غارت گری اور ظلم و ستم و جبر کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک مختلف انداز میں جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ہندوستان نے پاکستان کی رضامندی کے ساتھ یہ فیصلہ کیا تھا کہ ریاست جموں وکشمیر کا مسئلہ ریاستی عوام کی رائے پر مبنی رائے شماری ، ریفرنڈم کے ذریعے طے کیا جائے گااور مسئلہ کشمیر کے اسی حل کے پہلے اقدام کے طور پر ریاست جموں وکشمیر میں جنگ بندی کراتے ہوئے سیز فائر لائین کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ ریاست جموں وکشمیر کے اکثریتی مسلمان کیا چاہتے ہیں، اسی لئے ہندوستان جنگ بندی کے بعد مختلف بہانوں سے رائے شماری کرانے سے راہ فرار اختیار کرنے کے حربے استعمال کرتا رہا۔ اور بعد ازاں ہندوستان نے قطعی طور پر رائے شماری سے انکار کرتے ہوئے متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیناشروع کر دیا۔یہ واضح رہے کہ ریاست جموں وکشمیر کے اکثریتی مسلمانوں نے ڈوگرہ مہاراجہ کے تسلط کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے ریاست جموں وکشمیر کی غالب اکثریتی آبادی کی امنگوں کی ترجمانی میں22اکتوبر1947کو آزاد حکومت ریاست جموں وکشمیر کا قیام عمل میں لایا تھا۔اس کے بعد ہندوستان کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مختلف ادوار میں ہندوستان سے آزادی، اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق رائے شماری کے لئے مختلف تحریکیں چلتی رہیں لیکن ہر بار ہندوستان نے بدترین ظلم و ستم اور جبر سے کشمیریوں کی ہر کوشش کو سختی سے کچل دیا۔ گزشتہ 19ویں صدی کے آٹھویں عشرے،1980کی دہائی سے ہندوستانی مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہندوستان سے آزادی کی ایک ایسی بے نظیر تحریک شروع ہوئی جو اب تک مسلسل مختلف انداز میں زور و شور سے جاری و ساری ہے۔اس دوران ایک لاکھ سے زائد کشمیری ہندوستانی فورسز کے ہاتھوں ہلاک کئے گئے، ہزاروں کو جیلوں، عقوبت خانوں میں قید کیا گیا، ہزاروں معذور اورہزاروں خواتین کی عصمت دری کے واقعات رونما ہوئے۔ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں بالخصوص1986سے اب تک ہندوستان نے مقبوضہ جموں وکشمیر کے مسلمانوں پہ جو بدترین مظالم ڈھائے، وہ عالم انسانیت کے لئے ایک سیاہ داغ کی حیثیت رکھتے ہیں۔درجنوں کی تعداد میں ایسے دن ہیں جب ہندوستانی فورسز نے بدترین ریاستی دہشت گردی کامظاہرہ کرتے ہوئے اجتماعی طور پر درجنوں کی تعداد میں کشمیری مسلمانوں کو قتل و غارت گری کا نشانہ بنایا۔ ہندوستانی فورسز کے ہاتھوں قتل و غارت گری کے ان واقعات کے دن ہر سال دنیا بھر میں مقیم کشمیری یادگاری دن کے طور پر مناتے ہیں۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوستانی فورسز کے ہاتھوں کشمیریوں کے خلاف قتل و غارت گری کے بے شمار واقعات اور ہندوستان کی طرف سے کشمیریوں کے خلاف ہر سطح پہ انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کے واقعات اور صورتحال کے بارے میں گزشتہ تیس سال سے متعدد عالمی اداروں اور تنظیموں کی رپورٹس شائع ہو چکی ہیں جن میں ہندوستان کی طرف سے کشمیریوں کے خلاف ڈھائے گئے بدترین ظلم و جبر کے واقعات کی تفصیلا ت بیان کی گئی ہیں۔گزشتہ تیس سال کے دوران مقبوضہ جموں وکشمیر کے ہر علاقے میں شہدائے کشمیر کے قبرستان قائم ہوئے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مطابق مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور پرامن حل کے لئے رائے شماری کا مطالبہ کرنے کی پاداش میں ہندوستانی فورسز کے ہاتھوں ہلاک کئے گئے۔اسی حوالے سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں اجتماعی قبروں کا بھی ایک بڑا موضوع ہے جس بارے میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی کئی رپورٹس بھی سامنے آ چکی ہیں جن میں ان مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جہاں ہندوستانی فورسز نے کشمیریو ں کوبے رحمی سے ہلاک کرنے کے بعد انہیںاجتماعتی قبروں میں دفن کر دیا تا کہ اجتماعی ہلاکتوں کے ان واقعات کو دنیا کے سامنے آنے سے روکا جا سکے۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ ہندوستان میں مشرقی پنجاب کے علاقے میں1980کی دہائی میں سکھوں کی اپنی آزاد ریاست خالصتان کے قیام کی تحریک جاری رہی جسے ہندوستان نے بدترین فوجی آپریشن سے قتل و غارت گری کے ذریعے وقتی طور پر کچل دیا تھا، تاہم ہندوستان نے سکھوں کے خلاف اپنی کاروائیوں میں سکھ خواتین کی عصمت دری کو ایک جنگی حکمت عملی کے طورپر استعمال نہیں کیا جبکہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہندوستانی فورسز نے کشمیریوں کے جذبہ آزادی کی پادازش میں کشمیری خواتین کے خلاف عصمت دری کے واقعات کو ایک جنگی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا۔ ہندوستانی فورسز کے ہاتھوں کشمیری خواتین کی اجتماعی عصمت دری کے بے شمار واقعات ہیں جن میں اجتماعی عصمت دری کا ایک بھیانک واقعہ ” کنن پوش پوری” کا ہے۔ ہندوستانی فوج نے23فروری1991کو مقبوضہ کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے ایک گائوں ‘کنن پوش پورہ ‘ میں ہندوستانی فوج نے رات کے وقت وحشت اور درندگی کا عریاں مظاہرہ کرتے ہوئے گائوں کا محاصرہ کرنے کے بعد گائوں کے تمام مردوں کو بندوق کی نوک پر ایک جگہ محصور کرنے دیا اور اس کے بعد شراب کے نشے میں مدہوش ہندوستانی فوجیوں نے بلا تخصیص گائوں کی ایک سو کے قریب خواتین کو عصمت دری کا نشانہ بنایا جن میں سات سال کی معصوم بچیوں سمیت ستر سال کی بزرگ خواتین بھی شامل تھیں۔یہ واقعہ انسانی تاریخ کے ایک بدنما داغ کی حیثیت سے ہر سال نہایت دکھ کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ اس ظلم عظیم کے مرتکب ہندوستانی فوجیوں کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کی گئی اور اسی طرح کے انسانیت سوز مظالم کرنے والے ہندوستانی فوجیوں کو ہندوستانی حکومت کی طرف سے مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔21صدی کے پہلے دو عشروں میں مقبوضہ جموں وکشمیر کے صورتحال پر نظر دوڑائیں تو بھی مقبوضہ جموں وکشمیر کے نہتے مسلمانوں کے خلاف ہندوستان کی طرف سے فوجی کاروائیوں سمیت ہر سرکاری سطح پہ بدترین ظالمانہ کاروائیاں نظر آ تی ہیں۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہندوستان کی عدالتیں کشمیریوں کے خلاف ہندوستان کی انسانیت سوز کاروائیوں میں ہندوستانی اداروں، انسانیت سوزمظالم کے مرتکب افراد کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے ہندوستانی حکومتوں کی ظالمانہ اور جابرانہ کاروائیوںمیں سہولت کاری کا کردار ادا کرتی چلی آ رہی ہیں۔تقریبا ساڑھے تین سال ہندوستان نے کشمیریوں کو سزایاب کرنے کے لئے 5اگست2019 سے ایک نئے منصوبے، ایک نئی حکمت عملی کا آغاز کیا۔ کشمیریوں کے خلاف اس مذموم منصوبے کے سلسلے میں پہلے ہندوستان نے پہلے چند لاکھ کی تعداد میں مزید فورسز کو مقبوضہ کشمیر میں متعین کیا جس سے مقبوضہ کشمیر میں متعین ہندوستانی فورسز کی مجموعی تعداد دس لاکھ سے قریب ہو گئی۔ مقبوضہ کشمیر کی ہر سڑک، ہر گلی، ہر محلے میں ہندوستانی فورسز اہلکار بڑی تعداد میں مسلسل گشت کرنے لگے تا کہ 5اگست2019 کے ہندوستان کے اقدام کے خلا ف کشمیری احتجاجی مظاہرے نہ کر سکیں۔اس سے پہلے ہی ہندوستان نے ہزاروں کی تعداد میں کشمیری سیاسی کارکنوں، رہنمائوں کو قید کر دیا۔اب مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہندوستان کے ظلم و جبر کا یہ عالم ہے کہ کسی کو ہندوستان کے انسانیت سوز مظالم کے خلاف تنقید کرنے، احتجاج کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے اور ہندوستان کے خلاف بات کرنے والے کو بھی دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس کے خلا ف دہشت گردی کے الزامات میں مقدمات درج کرتے ہوئے سخت تادیبی کاروائی شروع کر دی جاتی ہے۔گزشتہ کئی سال سے ہندوستان نے یہ حکمت عملی بھی اپنائی ہوئی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کا مطالبہ کرنے والے کشمیریوں کو گرفتار کرنے کے بعد جعلی مقابلوں میں ہلاک کر دیا جاتا ہے۔اب مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے کارکنوں، وکلائ، صحافیوں کو بھی گرفتاریوں، قید اور مختلف نوعیت کی سرکاری سطح کی کاروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کے بارے میں کوئی بھی بات عالمی منظر نامے پہ بے نقاب نہ ہو سکے۔ آج ہندوستانی مقبوضہ جموں وکشمیر دنیا کا وہ منفرد خطہ ہے جہاں کی تمام آبادی کو بدترین ظلم و ستم ، جبر سے تمام انسانی حقوق سے نہ صرف محروم رکھا گیا ہے بلکہ انسانیت سوز کاروائیوں کے ان کے انسان ہونے کے حق سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔ بلاشبہ ہندوستانی مقبوضہ جموں وکشمیر کی یہ بدترین صورتحال اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں، دنیا کے طاقتور ملکوں کے لئے ایک امتحان کی حیثیت رکھتی ہے کہ وہ دنیا کے اس خطے میں انسانوں کے ساتھ اس طرح کے غیر انسانی سلوک کا سخت نوٹس لیتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر کے انسانوں کو ان کے انسان ہونے، ان کے بنیادی حقوق کے حصول کو یقینی بنائے۔ اطہر مسعود وانی03335176429