ہفتہ‬‮   23   ‬‮نومبر‬‮   2024
 
 

پاک فوج بارے دشمن ممالک کے ایجنٹوں کی طرف سے پھیلائے جانے والے 19جھوٹ اور ان کی اصل حقیقت

       
مناظر: 389 | 14 May 2023  

اسلام آباد (پیارا کشمیر خصوصی فیچر ) پاک فوج کے افسران کی پرتعیش طرز زندگی  کے بارے میں بہت سی خرافات اور قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں ۔ یہ غلط فہمیاں اور جھوٹ اس پروپیگنڈے کا حصّہ ہے جس کا مقصد پاکستانی عوام کے ذہنوں کو آلودہ کرنا ہے، تاکہ فوج اور عوام کے درمیان دراڑ ڈالی جا سکے  ۔ ان الزامات اور جھوٹے پروپگنڈے کا سدباب کرنے کیلئے انکے متعلق ابہام ختم کرنا ضروری ہے ۔ نمبر 1. %10 سے زیادہ افسران بریگیڈیئر رینک تک نہیں پہنچتے یعنی BPS-20 ۔  جبکہ اسکے مقابلے میں سول اداروں کے تقریباً  %70 کے قریب افسران  BPS-20 میں پہنچ کر ریٹائر ہوتے ہیں۔نمبر 2.  پاک فوج کے صرف %2 افسران میجرجرنل رینک تک پہنچ پاتے ہیں اور اس سے مزید کم یعنی %0.4 لیفٹینٹ جنرل کے رینک تک پہنچ پاتے ہیں۔  اور یہ ترقی وہ صرف اور صرف اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی بناء پر حاصل کرتے ہیں ۔ اس ترقی کا انکے خاندانی پس منظر سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔ جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ایک جنرل کا بیٹا ہی صرف جرنیل بن سکتا ہے ۔  جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج تک کسی جرنیل کا بیٹا آرمی چیف نہیں بنا لیکن جرنل مشرف ،جرنل جہانگیر کرامت، جرنل وحید کاکڑ ، جرنل اسلم بیگ ، اور جرنل ضیاء الحق جیسے آرمی چیف بنے  جن کے والدین کا عسکری  شعبے سے کوئ تعلق نہیں تھا ۔ نمبر 3.  فوجی افسران بھی پانی بجلی گیس بلوں کی ادائیگی بغیر کسی رعایت کے کرتے ہیں۔نمبر 4. فوج کے تمام افسران سے انکم ٹیکس کی ادائیگی تنخواء سے کٹوتی کی صورت میں کی جاتی ہے ۔  جو کہ ایک سال میں  دو ماہ کی تنخواہ کے برابر ہے۔نمبر 5. اگر فوجی آفیسر کو سرکاری رہائش الاٹ ہو جائے تو اسے تنخواہ میں مکان کا کرایہ نہیں ملتا۔نمبر 6.بریگیڈئیر سے کم رینک کا کوئ بھی افسر سرکاری  گاڑی  رکھنے کا مجاز نہیں ہے اورسرکاری گاڑی کا نجی طور پر استعمال منع ہے۔ نمبر 7. فوجی افسران ابتدائی دنوں سے ہی آرمی ہاؤسنگ اسکیم کے ممبر بن جاتے ہیں اور پھر سروس کے دوران ان کی تنخواہ  سے سکیم کے مطابق رقم ماہانہ طور پر کاٹی جاتی ہے ۔ ان کی ریٹائرمنٹ پر ایک تین کمروں کا اپارٹمنٹ  انکو اپنی  پنشن /کموٹیشن کا ایک بڑا حصہ ادا کرنے کے بعد الاٹ کیا جاتا ہے۔اب پہلے کی طرح جدا گھر نہیں صرف اپارٹمنٹ ہی ملتے ہیں  ۔ نمبر 8. ڈی ایچ اے میں پلاٹ بھی بطور سروس بینیفٹ صرف اچھے  ڈسپلن والے آرمی آفیسرز ، جے سی اوز یا شہداء   کے خاندانوں کو الاٹ کیا جاتا ہے ۔  شہدا خاندان کے علاؤہ باقی سب کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی قسطوں میں زمین کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ صرف  ترقیاتی چارجز ہی چھوڑے جاتے ہیں۔ نمبر 9 ۔ فوج کے تمام افسران کو زرعی زمین الاٹ نہیں کی جاتی ۔ صرف شھداء کے اہل خانہ ، اور ایسے افسران / سپاہیوں کو دی جاتی ہے جن کو کسی بھی آپریشن کے دوران زخمی ہونے کی بناء پر معذوری کا سامنا ہو۔ یا پھرکچھ سینئر افسران کو ان کی اعلیٰ خدمات کے اعتراف کے طور پر الاٹ کی جاتی ہے ۔  نمبر 10. آرمی ویلفیئر ٹرسٹ ایک آزاد اور خودمختار ادارہ ہے  جو کہ  حکومت پاکستان کو ٹیکس دیتا ہے ۔  اس ادارے میں فوج سے 44 سال کی عمر میں ریٹائر ہونے والے %90 افسران کو دوبارہ ملازمت دی جاتی ہے ۔ جبکہ اس کے برعکس کسی بھی سول  محکمے میں ملازمین کو 60 سال عمر سے پہلے ریٹائر نہیں کیا جاتا۔   نمبر 11. فوجی افسران کے بارے سب سے  بڑی اور عام غلط فہمی یہ پھیلائ جاتی ہے کہ یہ صرف ایف اے پاس ہوتے ہیں۔ فوج کے تمام افسران کیلئے گریجویشن ضروری ہے ۔ وہ ملٹری اکیڈمی سے پاس آؤٹ  ہونے کے دو سال اندر گریجویشن یعنی بی ایس کی  ڈگری حاصل کرلیتے ہیں۔ بی ایس کا یہ پروگرام بھی 4 سال کا ہے جو 2 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے پی ایم اے میں 2 سال اور باقی سروس کے پہلے 2 سال ۔ اس کے علاؤہ کچھ ٹیکنکل شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افسران کو انجنئیرنگ کے مختلف فیلڈز میں ملک کی چوٹی کی جامعات سے گریجویشن اور پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری کروائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ملکی اور غیر ملکی کورسز،کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج اور اعلیٰ تعلیم کیلئے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے ایم ایس کی ڈگری حاصل کی جاتی ہیں ۔ باقی دنیا بھر میں پاک فوج کے افسران کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور مہارت کی داد دی جاتی ہے ۔ لہذا یہ سب کسی ایف اے پاس کے بس کی بات نہیں کے عالمی/قومی منظر نامے پر ہر فورم پر پر اعتماد ہو کر ملک کی نظریاتی اساس کا دفاع کر سکے ۔  نمبر 12. فوج میں یہ “بلیڈی سولین ” جیسا جملہ بولنے کی کسی کو جرات نہیں ہوتی کیونکہ آج کی پاک فوج میں 90 فیصد سے زائد وہ ہیں جن کے والدین “سولین” ہیں۔ جو باقی دس فیصد فوجی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں انھیں اپنے ساتھیوں اور دوستوں کے جذبات اور خاندانی پس منظر کا بخوبی اندازہ ہے اور وہ فوجی ڈسپلن اور تربیت کی بناء پر ایسی بداخلاقی کرنے کا سوچتے بھی نہیں۔    نمبر 13. ہر بڑے ادارے کی طرح فوج میں بھی کبھی کبھار ایسے لوگ شامل ہو جاتے ہیں جو اپنی ذاتی فعل کی بناء پر ادارے کیلئے بھی باعثِ تشویش بن جاتے ہیں۔  سول اداروں کے بر عکس جہاں پاکستان سول سروس کے افسران کو نوکری سے برخاست کرنے کی مثال شاذو نادر ہی ملتی ہے۔ پاک فوج نے اپنی زیرو ٹالرینس پالیسی کی بناء پر حالیہ کچھ سالوں میں 200 سے زائد افسران کو نوکری سے برخاست کیا ہے اور سخت سزائیں دیں ہیں ۔ جرائم جیسا کہ عہدے کا ناجائز استعمال اور کرپشن فوج میں ناقابل قبول ہے مگر ادارے کے وقار کو مرکوز خاطر رکھتے ہوۓ ان سزائوں کی عوامی سطح پر تشہیر نہیں دی جاتی ۔ . نمبر 14. پاک فوج اور اسکے افسران و جوان اسی دھرتی کے بیٹے ہیں۔ اپنے ملک کی مجموعی صورتحال اور مسائل سے بخوبی واقف بھی ہیں اور ان مسائل کا سامنہ بھی کرتے ہیں ۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ہو یا کرونا کے باعث لاک ڈائون ہوں ان سب کافوجی چھاؤنیوں پر برابر نفاذ کیا جاتا ہے ۔نمبر 15. فوجی چھاؤنیوں میں نظر آنے والی صفائ اور نظم ونسق کی وجہ اضافی وسائل نہیں بلکہ اعلیٰ تنظیم اور حکام اعلیٰ کی نگرانی اور توجہ ہے ۔  جبکہ سول میٹروپولٹن کارپوریشن میں افرادی قوت ھونے کے باوجود ان خصوصیات کا فقدان نظر آتا ہے ۔ نمبر16۔ دفاعی بجٹ کے بارے میں منفی پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ یہ شاید  پاکستان کی ضروریات سے بہت زیادہ ہے اور بجٹ کا %80 حصہ دفاع پر خرچ ہوتا ہے ۔ حالانکہ  سچ یہ ہے موجودہ بجٹ میں دفاع کا حصہ 20 فیصد سے بھی کم ہے۔ جبکہ ہمارے پڑوسی دشمن ملک کا دفاعی بجٹ دس گنا بڑا ہے ۔ لیکن پھر بھی ہم نے اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنالیا ہے ۔ جس بجٹ کو زیادہ سمجھا جاتا ہے اس کے بارے میں جان لیں کہ پاکستان کے فی فوجی جوان اخراجات دنیا میں پہلے پچاس مملک سے بھی کم ہیں ۔پاکستان کے ایک فوجی پر فی کس خرچہ دنیا بھر میں سب سے کم ہے۔  . نمبر 17. اور سب سے ضروری بات جو ہم سب پاکستانیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم سب اور یہ فوج اسی دھرتی ماں کی اولاد ہیں۔ ہم میں سب کی کوشش ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کو ایک خوشحال اور پرامن زندگی دے سکیں۔ کوئی ایک پیشہ دوسرے پیشہ سے بہتر نہیں ہے ، ہم کسی بھی  پیشے کو نظر انداز نہیں کر سکتے نا ہی کسی کو اسکا حق  ہے ۔ کیونکہ سب ہی پیشے کام کریں گے تو ملک ترقی کرے گا خوشحال ہوگا ۔ نمبر 18. ہمارا اتحاد ہی ہماری طاقت ہے ، دنیا کی کوئی فوج بھی اپنی عوام کی مدد اور مرضی کے بغیر کوئ جنگ نہیں جیت سکتی ۔ اور ہمیں اس حقیقت کا اچھی طرح ادراک ہے ۔ بہادرعوام کی اخلاقی  حمایت  کے بغیر فوج چاہے جتنی بھی اسلحہ بارود سے لیس ہو جنگ شروع تو کر سکتی ہے مگر جیت نہیں سکتی ۔   نمبر 19۔۔ لہذا عوام بھی یہ ذمےداری سمجھے کہ کم از کم ان لوگوں کا نشانہ نہ بنیں جو فوج اور عوام کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے شرپسندوں اور سازشیوں کو پہچاننے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ان سے دفاعی بجٹ جیسے موضوعات پر رائے لی جائے۔ آپ خود دیکھیں گے کہ یہ کیسے ثابت حقائق اور اعدادوشمار میں ہیرا پھیری کریں گے ۔ لہذا ہمیں بحیثیت قوم تمام تر مشکلات کے باوجودِ ایک ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ملک دشمن قوتیں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نا ںہو سکیں۔ پاک فوج زندہ باد۔۔۔پاکستان پائندہ باد۔۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانیت دشمنی کی تفصیل
From Jan 1989 till 29 Feb 2024
Total Killings 96,290
Custodial killings 7,327
Civilian arrested 169,429
Structures Arsoned/Destroyed 110,510
Women Widowed 22,973
Children Orphaned 1,07,955
Women gang-raped / Molested 11,263

Feb 2024
Total Killings 0
Custodial killings 0
Civilian arrested 317
Structures Arsoned/Destroyed 0
Women Widowed 0
Children Orphaned 0
Women gang-raped / Molested 0