جموں(نیوز ڈیسک ) غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ مقامی سیاسی رہنما اگست 2019کے بعد اپنی نقل وحرکت پرپابندیوں کے عادی ہو چکے ہیں لیکن اس طرح کے اقدامات سے عوام کے ساتھ ان کا تعلق کمزور نہیں ہو سکتا۔
عمر عبداللہ نے ضلع رامبن کے علاقے بٹوت میں پارٹی کنونشن کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کو 2019میں دفعہ 370کی منسوخی کے بعد جس کے تحت علاقے کو خصوصی حیثیت حاصل تھی ،مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس کی قیادت اور پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی کی نقل و حرکت پر پابندیاں کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ 5اگست 2019کے بعد یہ ایک معمول بن چکا ہے۔ عمرعبداللہ نے کہاکہ ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں لیکن ہم نے یہ بھی سیکھ لیا ہے کہ کس طرح چکمہ دینااور مقابلہ کرنا ہے اور ہم ایسا کرتے رہیں گے۔انہوں نے افسوس کا اظہارکیاکہ اگست 2019میں لوگوں سے نوکریوں کا وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ ایک فہرست لے کر آئے، اگلے دن انکوائری کے بعد اسے منسوخ کر دیا۔ وہ لوگ جو ملازمتوں کے لیے کوالیفائی کررہے تھے وہ اس موقعے سے محروم ہو گئے اور عمر کی حد عبور کر گئے۔عمر عبداللہ نے بے گھر افراد کو پانچ مرلہ اراضی دینے کے حکام کے اقدام پر کہاکہ انتظامیہ نے اگست 2019کے بعد سٹیٹ سبجیکٹ قوانین میں تبدیلی کی ہے جس کی وجہ سے مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے کہ وہ اسکیم میں توسیع کریں ، انتظامیہ کو اس بات کا پتہ لگانا چاہیے کہ لوگ کتنے عرصے سے جموں و کشمیر میں رہ رہے ہیں۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ این سی نے بھارتی سپریم کورٹ سے امیدیں وابستہ کر لی ہیں جو اگلے ماہ سے دفعہ 370کی منسوخی کے خلاف کئی درخواستوں کی سماعت کرنے جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ جموں وکشمیر کے شہریوں کو انصاف ملے گا۔