جمعرات‬‮   21   ‬‮نومبر‬‮   2024
 
 

آئی پی پی کا حمام اور ۔۔۔۔؟ (3)

       
مناظر: 478 | 26 Jul 2024  

سیف اللہ خالد/ عریضہ

(گزشتہ سے پیوستہ)
معاملہ صرف یہ نہیں کہ آئی پی پیز کیپسٹی پیمنٹ کے نام پر لوٹ رہے ہیں بلکہ ناقابل یقین امر یہ کہ ملک میں ہوشربا پاور ٹیرف کی بنیادی وجہ اسے امریکی انفلیشن انڈیکس کے ساتھ منسلک کرنا ہے۔ سسٹین ایبل پالیسی انسٹیٹیوٹ (ایس پی آئی) کی ایک بریفنگ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ مہنگائی امریکہ میں ہوگی اور بجلی کی قیمت پاکستان میں بڑھے گی کیوں کہ آئی پی پیز امریکی مہنگائی کی قیمت پاکستانیوں سے وصول کرتی ہیں۔ آئی پی پیز کے حکومت پاکستان سے بجلی معاہدے میں امریکی انفلیشن انڈیکس کو منسلک کیا گیا ہے۔ امریکی ڈالر کی قدر گرنے پر بھی پاکستان میں بجلی کا ٹیرف بڑھے گا۔ امریکا میں انفلیشن کی وجہ سے سال 2019ء سے سال 2024ء کے دوران ٹیرف کمپوننٹ میں 253فیصد کا اضافہ ہوا۔ ایس پی آئی ڈیٹا کے مطابق سال 2019 کے دوران پاکستان میں بجلی کی کپیسٹی چارجز کی رقم 3روپے 26پیسے فی یونٹ تھی جو سال 2024 میں بڑھ کر 10روپے 34 پیسے فی یونٹ ہو گئی ہے۔ یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکی مہنگائی کے ساتھ مقامی ملکی مہنگائی کا اثر بھی بجلی کے کپیسٹی چارجز میں شامل ہوگا جو عوام ہی کو دینا پڑے گا۔ ملک میں شرح سود بڑھنے سے گزشتہ 4 سال کے دوران بجلی کے یونٹ میں سودی ادائیگی 343فیصد بڑھ گئی ہے۔ آئی پی پیز کے ورکنگ کیپٹل نے 4 سال میں بجلی کا ایک یونٹ 716فیصد مہنگا کیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بجلی کے ٹیرف میں 12 سے 20فیصد تک ٹیکس جب کہ 70 فیصد کپیسٹی چارجز شامل ہیں۔
آئی پی پی مافیا کس قدر طاقتور کے اسے سمجھنے کے لئےہمارے دوست سینیئر صحافی تنویر شہزاد ایک قصہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ جب شروع شروع میں آئی پی پیز کے معاہدوں کے شدید اثرات سامنے آنا شروع ہوئے تو اس پر واپڈا کے اندر بہت بے چینی تھی۔ جو کچھ کماتے تھے اس کا ایک معقول حصہ نجی پاور پلانٹس لے جاتے تھے۔ واپڈا کی ایک اہم شخصیت جو ان دنوں اس بارے میں بہت پریشان تھی۔ اور دن رات اسی فکر میں پریشان رہتی تھی۔ یہ صاحب ایک رات اپنے گھر میں موجود تھے۔انہوں نے اپنے جاننے والی کچھ حکومتی شخصیات سے اس بارے میں فون پر بات کی لیکن کوئی بہتر رسپانس نہ مل سکا۔ وہ صاحب انہی سوچوں میں گم تھے۔ نیند نہیں آ رہی تھی اٹھ کر کمرے میں ٹہلنا شروع ہو گئے۔ یہ رات بارہ بجے کے بعد کا وقت تھا۔پتا نہیں ان کے جی میں کیا آئی کہ انہوں نے گاڑی نکالی اور سونے والے کپڑوں میں خود گاڑی چلا کر مزنگ پہنچ گئے ۔ جسٹس قیوم کے گھر کے باہر موجود سیکورٹی والے کو اپنے آنے کا بتایا۔ جسٹس قیوم ملک انہیں لینے خود گھر سے باہر آگئے۔وہ واپڈا والے صاحب کو ساتھ لے کر ڈرائنگ روم میں پہنچے تو وہاں لاہور ہائی کورٹ کے دو اور جج بھی موجود تھے۔ ویک اینڈپر گپ شپ چل رہی تھی۔واپڈا والے صاحب نے جسٹس قیوم ملک سے کہا کہ پاکستان کے ساتھ بڑی زیادتی ہو رہی ہے اور اگر اس مسئلے کا کوئی حل نہ نکالا گیا تو غریب آدمی کو بجلی کا بل مار دے گا۔ جسٹس قیوم ملک نے ان صاحب سے کہا کہ آپ فکر نہ کریں یہ ملک کا مسئلہ ہے انشاءاللہ بہتری ہو گی۔ آپ کل ایک درخواست کورٹ میں ڈلوا دیں۔ان دنوں واپڈا کے وکیل عمر عطا بندیال ہوا کرتے تھے۔ معاملہ عدالت میں پہنچا تو جسٹس قیوم ملک نے آرڈر کیا کہ حتمی فیصلے تک اب سے آئی پی پیز کے پیسے عدالت میں جمع ہوں گے ۔ اس پر بجلی پیدا کرنے والے نجی ادراوں میں ایک طوفان سا برپا ہو گیا۔ لیکن ان کا کوئی بس نہ چلا اور وہ عدالت سے باہر معاہدے پر نظر ثانی کے لئے رضامند ہوگئے ۔ کہا جاتا ہے کہ پھر اس معاملے میں عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط آ گئیں اور یوں ان کے ایک نمائندے شوکت عزیز نے پرویز مشرف کو کہہ کر واپڈا کی اس اہم شخصیت کو ملازمت سے نکلوا دیا۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ‘‘ تنویر شہزاد کا خیال ہے کہ اب جو تازہ ہنگامہ برپا ہے ۔ اس میں گوہر اعجاز تو محض فرنٹ مین لگتے ہیں۔ ان کے پیچھے آہنی ہاتھ بتائے جاتے ہیں ،اس کے باوجود کیا یہ بات سرے چڑھ پائے گی؟فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
مختصر بات یہ کہ آئی پی پی مافیا کو اگر اس وقت کنٹرول نہ کیا گیا ، اور اس اژدھے کے دانت نہ توڑے گئے تو مستقبل انتہائی بھیانک دکھائی دیتا ہے ، انڈسٹری کو تو بھول جائیں، پورا حکومتی خزانہ دے کر بھی جان چھوٹنے والی نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کا کوئی حل نہیں ؟ حکومت اگر چاہے ، پارلیمنٹ اور عدلیہ کو سیاسی ، گروہی اور ذاتی مفادات کی جنگ سے فرصت ملے تو حل کوئی مشکل نہیں ۔ 80فیصد ادارے آپ کے اپنے ہیں ، ان سے فوری طور پر معاہدے منسوخ کئے جائیں ، بقیہ 20فیصد کا معاملہ پارلیمنٹ میں لائیں ، معاہدے منسوخ کریں ، عدالت میں ان کے خلاف کرپٹ اگریمنٹ کے مقدمات چلائیں ، معاہدے منسوخ کریں ، عالمی عدالت میں مقدمات جائیں تو انہیں لڑا جائے ، یقینا کچھ جرمانے ہوں گے ، نقصان ہوگا ، حکمرانوں اور سیاستدانوں کی دولت کی ہوس کا یہ نقصان تو ہونا ہی ہے ، لیکن یہ ملکی آزادی ، خودمختاری اور آئندہ کے لئے ان معاہدوں سے رستگاری کے فائدہ سے بڑا نقصان نہیں ہوگا۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانیت دشمنی کی تفصیل
From Jan 1989 till 29 Feb 2024
Total Killings 96,290
Custodial killings 7,327
Civilian arrested 169,429
Structures Arsoned/Destroyed 110,510
Women Widowed 22,973
Children Orphaned 1,07,955
Women gang-raped / Molested 11,263

Feb 2024
Total Killings 0
Custodial killings 0
Civilian arrested 317
Structures Arsoned/Destroyed 0
Women Widowed 0
Children Orphaned 0
Women gang-raped / Molested 0