3 غیر معروف سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) سے رجوع کیا ہے تاکہ انہیں ایک اتحاد کے طور پر رجسٹرڈ کیا جائے اور مشترکہ انتخابی نشان الاٹ کیا جائے۔
اتحاد کے مجوزہ نام نے اس معاملے کو اور دلچسپ بنا دیا ہے، کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ اتحاد کو تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان (ٹی ٹی اے پی) کے نام سے رجسٹر کیا جائے، جو کہ محمود خان اچکزئی کی قیادت میں موجود ایک اپوزیشن اتحاد کا نام بھی ہے۔
درخواست گزاروں میں پاکستان امن تحریک کے چیئرمین علی شیر یوسف زئی، پاکستان فلاحی تحریک کے چیئرمین فضل امان خان، اور پاکستان ویلفیئر پارٹی کے چیئرمین محمد فاروق شامل ہیں۔
ٹی ٹی اے پی اتحاد اس اقدام کو اپنے نام کو ہتھیانے اور اپنی مزاحمتی تحریک کو سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دے رہا ہے، اس نے اپنی پوزیشن کے دفاع کے لیے الیکشن کمیشن میں پیش ہونے کے لیے ایک قانونی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔
الیکشن کمیشن کے سامنے اتحاد اور اس کی اتحادی جماعتوں کی نمائندگی کرنے والوں میں مصطفیٰ نواز کھوکھر اور جسٹس ریٹائرڈ شاہد ملک شامل ہوں گے۔
ٹی ٹی اے پی کے ذرائع نے بتایا کہ یہ اتحاد غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدامات کی مزاحمت اور آئین کی بالادستی کے لیے قائم کیا گیا ہے، ماضی میں بھی ایسے اتحاد بنے جو ای سی پی کے ساتھ رجسٹر نہیں تھے، لیکن انہوں نے اپنی تحریکیں جاری رکھیں، اسی لیے اس اتحاد کو بھی باضابطہ طور پر رجسٹر نہیں کیا گیا۔
سینئر سیاستدان محمود خان اچکزئی اپنی جماعت پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے-میپ) کے سربراہ بھی ہیں، ان کو 8 فروری کے عام انتخابات کے چند ہفتے بعد ٹی ٹی اے پی کا چیئرمین بنایا گیا تھا، اس اتحاد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی-مینگل) جیسی بڑی جماعتیں شامل ہیں۔
یہ اپوزیشن اتحاد الزام لگاتا ہے کہ پی ٹی آئی کا مینڈیٹ چُرایا گیا، اور وہ موجودہ حکومت کو عوام کی حقیقی نمائندہ نہیں مانتے، اس اتحاد نے حال ہی میں خاص طور پر خیبر پختونخوا اور پنجاب میں آنے والے سیلابوں کے باعث ملک گیر عوامی جلسے اور احتجاج عارضی طور پر معطل کر دیے ہیں۔