ہفتہ‬‮   23   ‬‮نومبر‬‮   2024
 
 

یہ 71نہیں ہے ، مسٹر مودی

       
مناظر: 812 | 27 May 2024  

عریضہ /سیف اللہ خالد

مودی کے دل ودماغ پر پاکستان کس بری طرح سے سوار ہے ، اس کا اندازہ ا س سے لگایا جا سکتا ہے ،ان انتخابات میں اس کی جیت یقینی ہے، اس کے باوجود اس کی کوئی تقریر مکمل نہیں ہوتی جب تک کہ وہ پاکستان کا ذکر نہ کرلے ، ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ جب کوئی بلا وجہ گالی یا دھمکی دے تو پریشان ہونے کے بجائے خوش ہونا چاہئے کہ وہ آپ کے خوف کا شکار ہے ۔ تازہ ہفوات یہ سامنے آئی ہے کہ پٹیالہ میں انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’ میں 71میں حکمران ہوتا تو پاکستان سے کرتار پور چھین لیتا ، اب بھی موقع ملا تو چھین لوں گا ۔‘‘ اس پر اتنا ہی کہاجا سکتا ہے کہ ’’یہ 1971نہیں ہے ، مسٹر مودی ، کرتار پور تم ہوتے بھی تو اس وقت بھی نہیں چھین سکتے تھے ، وہ تو کچھ اندر کے غدار تھے ، جن کے سبب ڈھاکہ ڈوب گیا ، بنگلہ دیشی کرنل شریف الدین دالیم سے لے کربھارتی شہری شرمیلا بھوس تک ہزاروں گواہیاں موجود ہیں کہ تم اس وقت بھی اتنی جوگے نہ تھے ، ہم اپنوں کے ہاتھوں مارے گئے ، المیہ یہ ہے کہ میرے دیس میں آج بھی ایسے نمک حراموں کی کمی نہیں ، جن کا وجود ہی ملک دشمنی کی علامت ہے، ان میں71میں بھارت کی گود میں کھیلنے والوں کی اولادیں بھی شامل ہیں ، اور کچھ شخصیت پرست نئے چہرے بھی ، لیکن ان کے بھروسے کوئی پنگا نہ لینا ، یہ 71نہیں ہے ۔
دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد اور جعلی جمہوریت بھارت اندر سے ایک کرم خوردہ چوب کی طرح کھوکھلا ہو چکا ہے ، جس کی عدلیہ کا یہ عالم ہے کہ گزشہ دوماہ کے دوران ہائی کورٹ کے دوججز بھیجیت گنگوپادھیائے اور چترنجن داس سرعام یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ’’وہ دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کے رکن ہیں ۔‘‘ وہاں انصاف اور استحکام چہ معنی ، انسانی حقوق کی پامالیاں اس قدر سنگین اور معاشرتی تقسیم اس وقدر وسیع ہے کہ اب پاکستان سمیت کسی ملک کو بھارت کے ٹکڑے کرنے کی خاطر اپنا بجٹ اور دماغ صرف کرنے کی ضرورت نہیں ، یہ سفید ہاتھی کسی بھی وقت اپنے ہی بوجھ سے گر سکتا ہے ۔ بس انتظار شرط ہے ۔ انسانی حقوق کی صورتحال یہ ہے کہ بھارتی دہشت گردی کے سرپرست امریکہ کی کانگریس کمیٹی نے ایک رپورٹ اپریل میں شائع کی ہے ، اس میں لکھا گیا ہے کہ ’’بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تاریخ بہت طویل ہے جہاں اقلیتیں بالخصوص مسلمان بھارتی حکومت کے مظالم کا شکار ہیں‘‘، یہ لوگ کسی بھی وقت مرکز کے خلاف بغاوت کر سکتے ہیں ۔رپورٹ کے مطابق بھارت انسانی حقوق کی بے شمار خلاف ورزیوں کا مرتکب پایا گیا ہے جن میں سے اکثر سنگین نوعیت کی خلاف ورزیاں ہیں۔رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں جو اہلکار ملوث پائے گئے ہیں، بھارتی حکومت نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ گزشتہ سال سویڈن میں قائم” ورائٹیز آف ڈیموکریسی پروجیکٹ” نے بھارت کو گزشتہ دس سالوں میں بدترین آمریت پسندوں میں سے ایک قرار دیا۔ اس سے قبل 2021میں امریکی فریڈم ہائوس کی رپورٹ میں کہاگیاتھاکہ انتہا پسند مودی اور ان کی جماعت بھارت کو بدترین آمریت کی طرف لے کر جا رہے ہیں اور بھارت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے دوسرے ممالک میں بسنے والے افراد کے خلاف اپنی ایجنسیوں کے ذریعے حملے بھی کرواتا ہے۔بھارت میں تقریبا 80فی صد ہندو، 14 فی صد مسلمان ، 2 فی صد سکھ اور صرف 2 فیصد عیسائی آباد ہیں اور اقلیتوں کی اتنی کم تعداد بھی ہندوتوا کے پرچارکوں کو قبول نہیں جو آئے روز
ان پر ظلم وستم کرتے ہیں۔ کانگریشنل ریسرچ سروسز کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف پرتشدد واقعات میںہراساں کرنا، دھمکیاں دینا اور قتل تک کر دینا شامل ہے۔ انتہا پسند ہندو گائے کو ذبح کرنے یا اس کی تجارت کرنے کی آڑ میں مسلمانوں پر پرتشدد حملے کرتے اور ان کو قتل کرتے ہیں۔مسلمانوں کے بعد بھارتی انتہا پسندوں کے ظلم و ستم کا دوسرا بڑا شکار مسیحی برادری ہے جن پر ہر ہفتے اوسطا 11پرتشدد حملے کیے جاتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے 2022 میں کہا کہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملوں میں کچھ بھارتی اہلکار نہ صرف شامل ہیں بلکہ حملہ آوروں کی سہولت کاری بھی کر رہے ہیں۔انتھونی بلنکن کا یہ بیان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے حملوں کو حکومتی پشت پناہی حاصل ہے۔امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے 2020میں یہ سفارش بھی کی کہ وزارت خارجہ بھارت کو مذہبی آزادی کے حوالے سے ایک تشویش ناک ملک کے طور پر نامزد کرے۔گزشتہ سال پریس فریڈم کی رپورٹ میں بھی بھارت میں آزادی اظہار رائے، میڈیا پر سنگین پابندیوں، صحافیوں کی بلاجواز گرفتاریوں اور ان کے خلاف مقدمات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ پریس فریڈم رپورٹ 2023 کے مطابق بھارت میں انٹرنیٹ پر سنگین پابندیاں، آن لائن مواد کی سنسر شپ اور ڈیجیٹل میڈیا صارفین پر بھارتی حکومت کا دبائو آزادی اظہار رائے کو سلب کرتا ہے، سال 2022میں 84بار انٹرنیٹ کو بلیک آئوٹ کرنے پر مسلسل پانچویں سال بھارت کو دنیا کا سب سے بڑا مجرم قرار دیا گیا۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ2019میں انتہا پسند مودی حکومت نے کشمیر کی آئینی حیثیت کو تبدیل کردیا جو اقلیتوں کے حقوق کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق خصوصی اختیارات کے قانون کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے بھارتی فورسز کو بغیر کسی الزام کے بڑے پیمانے پر لوگوں کو گرفتارکرنے کی اجازت دی گئی۔بھارت میں خواتین کو ہر طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس میں جنسی تشدد عام ہے۔بھارت میں جبری شادی، خواتین کا قتل، جبری گمشدگیاں اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ایک معمول بن چکا ہے۔ بھارت کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں کوکی اور میتی قبائل کے درمیان تنازعے کے نتیجے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں۔ رپورٹ سے ظاہرہوتا ہے کہ بھارت میں ہندوانتہا پسندی عروج پر ہے اور آئے روز اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانیت دشمنی کی تفصیل
From Jan 1989 till 29 Feb 2024
Total Killings 96,290
Custodial killings 7,327
Civilian arrested 169,429
Structures Arsoned/Destroyed 110,510
Women Widowed 22,973
Children Orphaned 1,07,955
Women gang-raped / Molested 11,263

Feb 2024
Total Killings 0
Custodial killings 0
Civilian arrested 317
Structures Arsoned/Destroyed 0
Women Widowed 0
Children Orphaned 0
Women gang-raped / Molested 0