اسلام آباد ( مانیٹرنگ رپورٹ )
حمود الرحمن کمیشن کو یہ ٹاسک نہیں دیا گیا کہ مشرقی پاکستان کیوں الگ ہوا؟ بلکہ اس کو یہ ٹاسک دیا گیا تھا کہ مشرقی پاکستان میں فوج نے سرنڈر کیوں کیا؟ لہذا اس کمیشن نے صرف فوج میں ہی کیڑے نکالے۔تین ججوں پر مشتمل کمیشن تھا جس کا سربراہ حمود الرحمن نامی جج تھا جو بنگالی تھا۔ بھٹو نے بنگالی جج کا انتخاب جان بوجھ کرکیا تھا۔ جج موصوف بھی اس وقت کی ڈس انفارمیشن وار سے بری طرح متاثر تھا اور فوج کے خلاف ویسا ہی بغض تھا جیسا اس وقت جسٹس محسن اختر کیانی یا جسٹس بابر ستار وغیرہ کو ہے۔چونکہ فوجی سرنڈر ایک خالصتاً فوجی معاملہ ہے تو جج صاحبان نے یہ بھی درخواست کی تھی کہ ان کو تربیت دی جائے تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ فوجیں لڑتی کیسے ہیں اور سرنڈر کیسے کرتی ہیں؟ لہذا انہیں چند دن فوجی محاذوں پر تربیت کے لیے بھی بھیجا گیا اور اسی سے وہ اتنے ماہر ہوگئے کہ فوج کی غلطیاں نکال سکیں۔یہ کمیشن مجموعی طور پر 213 افراد کی گواہیاں ہیں۔ جن میں 27 فوجی اور باقی سارے سولینز بشمول وارث میر ٹائپ صحافی، وکیل، کچھ سیاستدان اور عوامی نمائندے بھی ہیں۔ بلکہ اس وقت کچھ سیاستدانوں نے اعتراض بھی کیا تھا کہ اس کمیشن کو فوجی پہلؤوں تک محدود رکھیں لہذا ہم سے کس چیز کے انٹرویوز لیے جا رہے ہیں؟حمود الرحمن کمیشن کا بڑا حصہ پرویز مشرف حکومت نے شائع کر دیا تھا۔کمیشن اس قدر جانبدار تھا کہ اگرتلہ سازش کو بھی کمیشن نے ایوب خان کی فوجی حکومت کی غلطی قرار دیا کہ اگر شیخ مجیب انڈینز کے ساتھ بیٹھ کر پاکستان توڑنے کی منصوبہ بندی کر بھی رہا تھا تو اس کو گرفتار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟کمیشن کو جو ٹاسک دیا گیا تھا یعنی اس سوال کا جواب کہ فوج نے سرنڈر کیوں کیا بہت آسان ہے۔ پاک فوج کی کل تعداد 34000 تھی جن کے پاس رسد اور ہتھیار ختم ہوچکے تھے۔ جب کہ مقابلہ میں ڈھائی لاکھ تربیت یافتہ مکتی باہنی کے گوریلے جن میں پاک فوج سے بغاؤت کرنے والے 15 ہزار بنگال رائفلرز کے جوان بھی تھے اور انکی مدد کو ڈھائی لاکھ انڈین فوج آئی تھی۔ خود انڈین آرمی چیف نے اعتراف کیا تھا کہ پاک فوج بہت بہادری سے لڑی لیکن ان کے پاس کوئی چانس نہیں تھا۔ ان کے پاس ہتھیار اور رسد ختم تھی۔ عوام کو ان کے خلاف کیا جا چکا تھا اور ہمیں ان پر 1 کے مقابلے میں 10 کی برتری تھی۔زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا تھا کہ 34000 جوان کٹوا کر پاکستان انکی لاشیں بھیج دی جاتیں۔ ایسا دنیا میں کوئی جرنیل نہیں کرسکتا کہ اپنی ساری فوج مروا دے۔سوال یہ ہونا چاہئے تھا کہ بنگلہ دیش میں بغاوت کیوں ہوئی؟ مکتی باہنی کو کون اور کیوں تیار کر رہا تھا؟ شیخ مجیب اور انڈینز کا کیا کنکشن تھا اور کب سے تھا؟ بھٹو نے مجیب کو حکومت کیوں نہیں دی؟ انڈینز نے حملہ کیوں کیا؟لیکن ان سوالات کے جوابات ڈھونڈیں تو فوج کو کیسے گندا کرینگے؟ اس میں تو میڈیا کے چہیتے سیاستدانوں کے مکروہ چہرے بےنقاب ہوتے ہیں۔ لہذا کمیشن کو اس تک رکھا جائے کہ فوج نے سرنڈر کیوں کیا؟حمود الرحمن کمیشن سے زیادہ معتبر رپورٹیں ان بنگالیوں کی ہیں جو یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور اس سب پر لکھ رہے تھے اور آج بھی لکھ رہے ہیں کہ کتنا زیادہ جھوٹ بولا گیا تھا پاک فوج کے خلاف۔ بدقستمی سے اس جھوٹ کا بڑا حصہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس حوالے سے قطب الدین عزیز اور شرمیلا بھوس کی کتابیں پڑھیں جو آنکھیں کھول دینے والی ہیں کہ بنگلہ دیشن میں درحقیقت ہوا کیا تھا۔عمران خان پاگل ہوکر اس تاریخ کو دہرانے کی کوشش میں ہے۔ اس نے علی امین گنڈا پور کو ٹاسک دیا ہے کہ کےپی کے میں جس حد تک ممکن ہو حالات خراب کیے جائیں۔ پی ٹی آئی نے کے پی میں دس سال میں جو تباہی پھیلا دی ہے اسکا ذمہ دار بھی وفاق کو قرار دے کر وہاں کی عوام کو بغاؤت پر آمادہ کیا جائے۔ گویا کے پی کے میں انسان نہیں بھیڑ بکریاں رہتے ہیں جن کی زندگی کا مقصد ایک کنجر پلے بوائے اور اس کی تعویز گنڈوں والی بیوی کے لیے جانیں دینا رہ گیا ہے