سیف اللہ خالد /عریضہ
جرمنی کے لوک ادب میں بچوں کے لئے ایک کہانیThe Pied Piper of Hamelin ( ہیملن کا پائیڈ پائپر) ہمارے سکول کے زمانے میں انگریزی نصاب کاحصہ تھی،اب معلوم نہیں ہےیا نہیں۔ تیرھویں صدی سےمتعلق یہ کہانی تھوڑےبہت ردوبدل کےساتھ، تین مشہور عالمی ادیبوں سےمنسوب ہے،جن میں 18ویں صدی کےدوعظیم جرمن ادیبوں Johann Wolfgang Von Goethe اور Brothers Grimmکےعلاوہ19ویں صدی کےانگریز ادیبRobert Browning کا نام لیاجاتا ہے ۔ اس لوک کہانی کا لب لباب یہ ہے کہ تیرھویں صدی عیسوی میں جرمنی کے شہر ہیملن کے لوگ چوہوں سے بہت تنگ تھے، اسی دوران وہاں ایک چوہے پکڑنے والا آگیا ،اس نے بین بجانا شروع کی تو شہر کے تمام چوہے ،اس کے پیچھے چل پڑے ، جنہیں لے جا کر اس نے ندی میں ڈبو دیا ، شہر والوں نے معاوضہ دینے سے انکارکیاتو اس نے دوبارہ بین بجائی شہر کے تمام بچے اس کے پیچھے چل پڑے،اس نےسب کو شہر سے باہر لے جاکر ایک غار میں بندکردیا ۔ اسی کہانی کےتناظر میں انگریزی ادب میں pied piperکا محاورہ رائج ہوا، جو اس شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے، جھوٹے دعووں سے لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لیتاہے ۔کہانی یوں یاد آئی کہ انتشاری ٹولےکابھی یہی حال ہے،جو بھی قائد انتشار کا نام لے کر جھوٹ کی بین بجاتا ہے یہ اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں، اب اس کی مرضی ہے وہ انہیں جہاں لےجائے ۔ پی ٹی آئی کارکنوں پرترس آتاہے، باربارایک ہی ’’لیڈرنما‘‘ نئے دعووں کے ساتھ انہیں بہکاتا ہے اور اسلام آباد پرچڑھائی کردیتا ہے،خود سازباز کرکے اپنی محفوظ جنت میں بھاگ جاتا ہےاورغریب کارکن جس کے پاس بعض اوقات واپسی کا کرایہ تک نہیں ہوتااسے پولیس کے جوتے کھانے کےلئےچھوڑجاتا ہے۔تماشہ تو یہ ہے کہ چند ہفتے بعد یہ سامری دوبارہ بین بجاتا ہےاور وہی کارکن چوٹیں سہلاتے پھر سے بڑھکیں مارتے شریک قافلہ ہوجاتے ہیں،اس بار اس سامری کے ہمراہ ایک دوسرا کرداربھی شریک ہوگیا ، جس کا دعویٰ ہے کہ اسے جنات کی معاونت حاصل ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب بھی ملک میں کوئی بڑی سفارتی یا اقتصادی سرگرمی شروع ہوتی ہے، یہ “pied piper” دھمال ڈالتا ہوا آجاتا ہے۔صرف گزشتہ تین ماہ کو دیکھ لیں پاکستان میں سعودی تجارتی وفد نےدورہ کرے ، ملائشین وزیراعظم آئے، روسی وزیراعظم دورہ کرے ، چینی وزیراعظم سی پیک کے سلسلہ میں آئے یا ایس سی او کانفرنس ہو ، یہ شر پسند ریاست کی سبکی کا بندوبست کرنے پہنچ جاتے ہیں ۔ حیرت تو یہ ہے کہ شعور کا نعرہ لگانے والے بےشعور کارکن باربار دھوکہ کھاتے ہیں،واپسی پرگالیاں دیتے ہیں لیکن جیسے ہی نقارے پر چوٹ پڑتی ہے، پھر سے چل پڑتے ہیں۔ان سادہ لوح کارکنوں کی آڑ میں انتشاری قیادت ملک کے خلاف انتہائی گھنائونا کھیل شروع کرچکی ہے ، جس کی اس بار انتہا کردی گئی ۔
شبہ نہیں کہ پر امن احتجاج جمہوریت کا حسن اور سیاست کی جان ہے ، لیکن اسلام آباد کے ایکسپریس ہائی وے اور دیگر مقامات پرجدید ہتھیاروں سے لیس نقاب پوش غنڈے پولیس پر آنسو گیس فائر کرتےہوئےدیکھے گئےہیں،سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کون ہیں؟ اور ان کے پاس یہ ہتھیارکہاں سےآئے؟یہ ہتھیار توقانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس ہوتے ہیں اور مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتےہیں۔ اب ایک ہی بات ہےکہ یاتو خیبر پختون خوا حکومت سے یہ ہتھیار چوری کرکے ان دہشت گردوں کےحوالے کیے گئے ہیں یاغیرقانونی طور پر کے پی پولیس کے اہلکاروں کو ریاست کےخلاف لایاگیا ہے ، دونوں صورتوں میں یہ بغاوت ہے۔ بعد میں انتشاری ٹولے کا سوشل میڈیا یہ بیانیہ بناتا ہے کہ ریاست اور ریاستی اداروں نے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ یہ ظلم کے پہاڑ بھی خود ہی توڑتے ہیں اور پھر ریاست کے خلاف بیانیہ بھی خود ہی بناتے ہیں۔ خود انتشاری ٹولے کی جانب سے سوشل میڈیا پر وائرل کی جانےوالی فوٹیج میں واضح ہےکہ یہ کوئی عام لوگ نہیں،تربیت یافتہ ہیں جوبڑی ہی مہارت سےیہ جدید اسلحہ اور آنسو گیس کے شیل فائر کر رہےہیں، عام آدمی اتنی مہارت سے یہ جدید اسلحہ اور یہ شیل فائر نہیں کر سکتا ۔جس طرح سے یہ سرکاری اور جدید اسلحہ اپنے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف استعمال کیا گیا، قانون نافذ کرنے والے اداروں پر پرتشدد حملے کیے گئے جن میں رینجرز کے جوانوں کی شہادتیں ہوئیں، پولیس کے جوان شہید ہوئے زخمی ہوئے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا،یہ انتہائی پریشان کن صورتحال ہے۔ یہاں یہ سوال بہت اہم ہےکہ یہ سرکاری اسلحہ کس کی ایماپرلایا گیا؟ کس نے سہولت کاری کی؟ اس کا مقصد کیا تھا؟ انسانی جانیں ضائع ہونے کا ذمہ دار کون ہے؟ لاش قانون نافذ کرنےوالےاداروں کے اہلکارکی گرے یا پی ٹی آئی کےکارکن کی،دونوں صورتوں میں پاکستانیوں کاقتل ہے، پاکستان کا نقصان ہے ۔گزشتہ چار روز کے دوران جو کچھ ہوا اس کا واضح مطلب ہے کہ یہ جتھے ایک منظم حکمت عملی کے تحت لائے گئےہیں ،جن کا مقصد اپنے سیکیورٹی اداروں پر حملہ آور ہو کر ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرنا ہے ۔ ان مقاصد کی تصدیق اس سے بھی بخوبی ہو جاتی ہے کہ حکومت باربار مذاکرات کی دعوت دیتی ہے، پارٹی قیادت مذاکرات میں بیٹھتی بھی ہے، ایک بات طے ہوجاتی ہے ، پارٹی سربراہ جس کی کال پر یہ سب ہنگامہ شروع کیا گیا تھا، وہ بھی مان جاتا ہےمگر ریاست پرحملہ اور وفاقی دارالحکومت کا محاصرہ موقوف نہیں ہوتا ، مسلح جتھے شہر میں داخل ہوتے اور ہر حال میں ریڈ زون پر قبضہ کرنے کے نعرے لگاتے ہیں ، ایسے میں ریاست کے پاس کارروائی کے سوا کیا آپشن رہ جاتی ہے ۔ اب بیرون ملک بیٹھے شرپسند نیا بیانیہ گھڑنے میں مصروف ہیں ، اور کمال یہ کہ ’’ہیملن شہرکے بچے ‘‘ پھر گمراہ ہونے کو تیار ہیں ۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ دنیا کی کوئی ریاست اپنی رٹ کو چیلنج کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دیتی ، نہیں یقین تو حال ہی میں برطانیہ اور فرانس میں ہنگامے کرنے والوں کا انجام دیکھ لیں ۔ بلوائیوں نے ریاست کو تحمل ترک کرنے پر مجبور کردیا ہے ، بہتر یہی ہوگا کہ اس سلسلہ کو یہاں روکا جائے ، ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے اور اپوزیشن اپنی ذمہ داری کو سمجھے ، ورنہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ’’ سرخ شعلوں سے جو کھیلو گے تو جل جائو گے ۔ ‘‘ اقبال عظیم کی پوری نظم ہی حسب حال ہے۔ پڑھیے اور سر دھنیے ۔
اپنے مرکز سے اگر دور نکل جاؤ گے
خواب ہو جاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے
اب تو چہروں کے خدوخال بھی پہلے سے نہیں
کس کو معلوم تھا تم اتنے بدل جاؤ گے
اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھلا مت دینا
سرخ شعلوں سے جو کھیلو گے تو جل جاؤ گے
دے رہے ہیں تمہیں جو لوگ رفاقت کا فریب
ان کی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاؤ گے
اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے
خواب گاہوں سے نکلتے ہوئے ڈرتے کیوں ہو
دھوپ اتنی تو نہیں ہے کہ پگھل جاؤ گے
تیز قدموں سے چلو اور تصادم سے بچو
بھیڑ میں سست چلو گے تو کچل جاؤ گے
ہم سفر ڈھونڈو نہ رہبر کا سہارا چاہو
ٹھوکریں کھاؤ گے تو خود ہی سنبھل جاؤ گے
تم ہو اک زندۂ جاوید روایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جاؤ گے
صبح صادق مجھے مطلوب ہے کس سے مانگوں
تم تو بھولے ہو چراغوں سے بہل جاؤ گے