سیف اللہ خالد /عریضہ
پی ٹی آئی پر پابندی اور صوبہ کے پی میں گورنر راج کی شنید ہے ، کہا یہ جاتا ہے کہ حکومت نے روز روز اسلام آباد پر یلغاراور وفاق کی ایک اکائی کا وفاق پر حملہ روکنے کے لئے تنگ آمد بجنگ آمد کےمصداق کڑوا گھونٹ بھرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ، اس سلسلہ میں کابینہ سے اتفاق رائے کی خبریں بھی چلوائی گئی ہیں ، دیگر حلقوں سے منظوری کا بھی ذکر کیا جا رہا ہے ، لیکن دکھائی یہ دے رہا ہے کہ حکومت اس انتہائی فیصلہ پر پہنچنے سے پہلے کافی سے زیادہ سوچ بچار کرنے کے موڈ میں ہے ، جوکہ اچھی بات ہے ۔ یہ اطلاع بھی خوش آئند ہے کہ حکومت اتحادیوں کو اعتماد میں لے کر ہی کوئی فیصلہ کرے گی ، اور حکومتی اتحادیوں میں اے این پی اور پیپلز پارٹی دوجماعتیں ایسی ہیں جو یہ فیصلے بھگت چکی ہیں ، یقیناً یہ فیصلہ اگر کیا جاتا ہے تو یہ صرف پی ٹی آئی کے لئے ہی نہیں حکومت کے لئے بھی امتحانی کیفیت کا حامل ہوگا ۔ یہ بھی سچ ہے کہ پی ٹی آئی کوئی پہلی جماعت نہیں جس کے خلاف یہ فیصلہ ہونےجا رہا ہے ، اس سے قبل قیام پاکستان سے اب تک 54 چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں پر مختلف ادوار میں پابندی عائد ہو چکی ہے۔ملکی تاریخ میں سب سے پہلے جولائی 1954 میں کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں پابندی عائد کی گئی۔ اس سازش کے الزام میں جنرل اکبر، ان کی اہلیہ، نامور شاعر فیض احمد فیض اور کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل سید سجادظہیر سمیت متعدد افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا۔دوسری بار مارچ 1971 میں اس وقت کے صدرجنرل یحییٰ خان نے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ پر پابندی لگانےکا اعلان کیا، اس جماعت کے سربراہ شیخ مجیب پرعدم تعاون تحریک کے ذریعے اقدام بغاوت کا الزام تھا ۔جنرل یحییٰ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’’شیخ مجیب اور ان کی جماعت نے قانون کی خلاف ورزی کی اور پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کی۔ ملک میں حکومت کے ہوتے ہوئے ایک متوازی حکومت چلانے کی کوشش کی، انہوں نے ملک میں تشدد اور عدم استحکام کو ہوا دی، مشرقی پاکستان میں تعینات فوجیوں پر طعنے کسے گئے اور ان کی تذلیل کی گئی۔اس وقت سپریم کورٹ کی جانب سے اس جماعت پر پابندی لگانے کے حکومتی فیصلے کی توثیق کی گئی تھی۔‘‘ عمر ایوب کے دادا پاکستان میں آمریت کے باوا آدم یعنی پہلے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان کے دور میں جماعت اسلامی کو بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ 1964 میں ایوب حکومت نے ریاست مخالف سرگرمیوں اور غیر ملکی فنڈنگ کے الزام میں جماعت اسلامی کو خلاف قانون قرار دے کر اہم رہنماؤں کو گرفتار کرلیا اور دفاتر کو سیل کردیا گیا تھا۔ بعد ازاں جماعت اسلامی کی جانب سےسپریم کورٹ سےرجوع کیا گیا جس نے پابندی ختم کرتے ہوئے جماعت اسلامی کو بحال کر دیا۔پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی (این اے پی) جو 1967 میں قائم ہوئی اس کے سربراہ ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کا نام دے دیا گیا تھا۔ نیشنل عوامی پارٹی کو آٹھ سال کے دوران دو مرتبہ پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے 1971 میں جنرل یحییٰ خان نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائدکی ،جبکہ دوسری مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1975 میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی۔ اس کے بعد نیشنل عوامی پارٹی کی دوبارہ سے تشکیل کی گئی، پہلے اس کا نام نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور پھر عوامی نیشنل پارٹی رکھا گیا۔
سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگانے کا کام صرف سابق فوجی آمروں نے ہی نہیں کیا بلکہ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی حکومت نے بھی 2021 میں تحریکِ لبیک پاکستان کو کالعدم جماعت قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کی تھی تاہم صرف سات ماہ کے عرصے کے بعد ٹی ایل پی کے احتجاج کے نتیجے میں اس وقت کی حکومت کو ایک معاہدے کے تحت اس جماعت پر عائد پابندی ہٹانا پڑی ۔
آئین پاکستان میں ملکی مفادات کے تحفط کی خاطر کسی شرپسند جماعت کو کالعدم قرار دینے کی گنجائش موجود ہے، آرٹیکل 17 میں اس کی وجوہات اور طریقہ کار بھی تفصیل سے دیا گیا ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017 میں اس معاملہ میں مزید وضاحت کردی گئی ہے ، لیکن اس کے لیے حکومت کو سیاسی انتقام کے لئے کھلا نہیں چھوڑا گیا ، سپریم کورٹ سے توثیق کرانا لازم ہے ، یقینا وہاں شواہد اور ثبوت بھی پیش کرنا ہوں گے ، مزے کی بات یہ ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی تخلیق میں پی ٹی آئی بھی پیش پیش تھی ،لہذا تحریک انصاف یا اس کی قیادت پر جو بھی الزامات ہیں ان کے تحت حکومت کو پابندی عائد کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے توثیق کرانالازم ہوگی ۔ اگرحکومت اپنےالزامات ثابت نہ کرسکی اورسپریم کورٹ نے پی ٹی آئی پر پابندی کی اجازت نہ دی تو حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ ہوجائےگا۔
اس میں شبہ نہیں کہ سیاسی جماعتوں پر پابندیاں لگانا کسی دور میں بھی پسند نہیں کیا گیا ، گو کہ پابندیاں پہلے بھی لگتی رہی ہیں اور اس وقت کی حکومتوں نے اپنے مقاصد بھی حاصل کیے لیکن یہ پابندیاں سپیڈبریکر کا کام تو کرتی ہیں ، مگر سیاسی جماعتوں کو مکمل ختم نہیں کر سکتیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ضروری نہیں ہر بار تجربہ ناکام ہی ہو جائے لہذا تحریک انصاف کی قیادت کو بھی موجودہ ملکی صورتحال کو سمجھنا ہوگا اور استعمار کے بجائے پاکستان کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے بات چیت کے دروازے کھولنے اور سیاسی جماعت کے طور پر قابل قبول طرز عمل اختیار کرنا ہوگا، حکومت کی مخالفت کوئی بری بات نہیں ، افواج اور اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت بھی کی جاسکتی ہے ، لیکن ریاست پر حملہ ، ملکی مفادات پر حملہ ، ملکی وقار اور استحکام کو دائو پر لگانا یہ کسی کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا ۔
وقت کیا شے ہے پتہ آپ ہی چل جائے گا
ہاتھ پھولوں پہ بھی رکھو گے تو جل جائے گا
کہہ دیا تھا کہ یہ رہبر جو چنا ہے تم نے
صاف طوطے کی طرح آنکھ بدل جائے گا
وہ بدلتے ہوئے ماحول کا سانچہ ہی سہی
کوئی سکہ تو نہیں ذہن کہ ڈھل جائے گا
فرض ہیں ہم پہ بیانات بصیرت اے شادؔ
جس کی قسمت میں سنبھلنا ہے سنبھل جائے گا
شاد عارفی