پیر‬‮   12   مئی‬‮   2025
 
 

شدت پسندی: معاشرے کے لیے زہر قاتل اور ترقی کی دشمن

       
مناظر: 301 | 12 May 2025  

تحریر:ـ سیف اللہ خالد
پاکستان، جسے دنیا نے قائداعظم محمد علی جناح کے وژن کے تحت ایک اعتدال پسند، روادار اور جمہوری ریاست کے طور پر تسلیم کیا، بدقسمتی سے پچھلی چند دہائیوں سے شدت پسندی، انتہا پسندی اور نفرت انگیزی جیسے ناسوروں کا سامنا کر رہا ہے۔ وہ قوم جو عشقِ رسول ﷺ، علم، اخوت، مہمان نوازی اور قربانی کی اعلیٰ روایات کی امین تھی، اسے دشمنوں نے فرقہ واریت، لسانیت، صوبائیت اور شدت پسندی کے اندھیروں میں دھکیلنے کی منظم سازش کی۔یہ محض ایک سماجی مسئلہ نہیں، بلکہ درحقیقت پاکستان کی نظریاتی، فکری، سیاسی اور معاشی بنیادوں پر حملہ ہے۔ شدت پسندی ایک خاموش دہشت گردی ہے جو نہ صرف فرد کو تباہ کرتی ہے بلکہ معاشرے کے حسن، ہم آہنگی، اور ترقی کے سفر کو بھی روک دیتی ہے۔دشمن کی سازش انتہائی چالاکی سے تیار کی گئی: مذہب کو ہتھیار بنا کر، اسلام کے نام پر فساد برپا کر کے، تعلیمی اداروں میں زہریلا بیانیہ داخل کر کے، سوشل میڈیا پر جھوٹ، نفرت اور شدت کو فروغ دے کر وہ پاکستان کے نوجوان ذہنوں کو یرغمال بنانا چاہتا ہے۔ آج جو دہشت گرد ہاتھ میں بندوق لیے کھڑا ہے، کل وہ کسی استاد، مذہبی رہنما یا سیاسی کارکن کے زیرِ اثر ایک معصوم ذہن تھا۔یہی وہ مقام تھا جہاں ریاست کو ایک مربوط، منظم اور مضبوط فکری ہتھیار کی ضرورت تھی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب “پیغامِ پاکستان” سامنے آیا — ایک ایسا تاریخی اور متفقہ بیانیہ جو علمائے کرام، دانشوروں، ریاستی اداروں اور سول سوسائٹی کا اجتماعی ضمیر ہے۔2018 میں طویل مشاورت، مکالمے اور فکری جدوجہد کے بعد ریاستِ پاکستان نے تمام مکاتبِ فکر کے 1800 سے زائد جید علمائے کرام سے ایک متفقہ فتویٰ جاری کروایا جسے “پیغامِ پاکستان” کا نام دیا گیا۔ اس بیانیے نے شدت پسندی اور دہشت گردی کو نہ صرف مذہبی طور پر حرام قرار دیا بلکہ اس کے فکری اور سماجی پہلوؤں کو بھی بے نقاب کیا۔
پیغامِ پاکستان کے بنیادی نکات درج ذیل ہیں:
خودکش حملے اور ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد سراسر حرام اور ناجائز ہے۔
مذہب کی بنیاد پر کسی کو واجب القتل قرار دینا شرعاً ممنوع ہے۔
اقلیتوں کے حقوق، جان، مال اور عبادات کا تحفظ اسلامی فریضہ ہے۔
صرف ریاست کو طاقت کا استعمال کرنے کا حق حاصل ہے، کسی فرد یا گروہ کو نہیں۔
• دینی مدارس کو امن، اخلاقیات اور انسانیت کا مرکز بنایا جائے گا۔
یہ بیانیہ دراصل اسلامی تعلیمات اور آئینِ پاکستان کی روشنی میں شدت پسندی کے خلاف ایک مضبوط فکری اور شرعی دیوار ہے۔
شدت پسندی کے خلاف لڑائی صرف میدانِ جنگ میں نہیں لڑی جاتی بلکہ دل و دماغ میں لڑی جاتی ہے۔ اس کے تدارک کے لیے .حکومت، علما، میڈیا، تعلیمی ادارے، والدین، نوجوان اور ہر طبقۂ فکر کو متحد ہو کر ایک جامع حکمتِ عملی اپنانا ہوگی:
ایسا نصاب  بنیا جائے جو مکالمے، رواداری اور تحقیق کی روح پیدا کرے۔
  . منبر ومحراب کو نفرت نہیں بلکہ وحدت، محبت اور برداشت کا ذریعہ بنایا جائے۔
آن لائن نفرت انگیز، شدت پسند مواد کو فوری ختم کر کے مثبت بیانیہ عام کیا جائے۔
تمام مسالک کے درمیان علمی و فکری سطح پر روابط کو فروغ دیا جائے۔
پیغامِ پاکستان جیسے بیانیے کو نصاب، میڈیا اور پالیسیوں کا حصہ بنایا جائے۔
آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک پرامن، خوشحال اور متحد ریاست کے طور پر ابھرے، تو ہمیں شدت پسندی کے خلاف نہ صرف نعرہ بلند کرنا ہوگا، بلکہ عملی اقدامات بھی اٹھانے ہوں گے۔ “پیغامِ پاکستان” ہمارا راستہ ہے، اتحاد و یگانگت ہمارا ہتھیار ہے، اور فکری بیداری ہماری منزل کی ضمانت ہے۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان صرف زمین کا ٹکڑا نہیں، یہ لاکھوں شہداء کے خون سے سیراب ایک نظریہ ہے — اور اس نظریے کو بچانے کے لیے ہمیں شدت پسندی کے ہر رنگ، ہر روپ، اور ہر وار کا مقابلہ کرنا ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانیت دشمنی کی تفصیل
From Jan 1989 till 29 Feb 2024
Total Killings 96,290
Custodial killings 7,327
Civilian arrested 169,429
Structures Arsoned/Destroyed 110,510
Women Widowed 22,973
Children Orphaned 1,07,955
Women gang-raped / Molested 11,263

Feb 2024
Total Killings 0
Custodial killings 0
Civilian arrested 317
Structures Arsoned/Destroyed 0
Women Widowed 0
Children Orphaned 0
Women gang-raped / Molested 0