عریضہ /سیف اللہ خالد
بھارتی انتخابات کے نتائج مکمل ہو چکے ، آج 8مئی کونریند مودی کے تیسری بار وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کی تیاریاں بھی مکمل ہیں ،لیکن اس حالت میں کہ اب وہ پھنکارتے ہوئے اژدھے کے بجائے رینگتے ہوئے کیچوے کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ اکثریت سے محروم، مفاد پرست اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی مودی حکومت کو اب اپنی دھوتی سنبھالنے سے ہی فرصت نہیں ہوگی،جس کا فائدہ وہاں کی اقلیتوں کو ہوگا ، دوسرا امکان یہ بھی ہے کہ حکومت بے شک ادھ موے کیچوے جیسی ہوگی لیکن مودی کا کلٹ یعنی’’ آر ایس ایس ‘‘ زخمی سانپ والا کردار ادا کرے گی،جس کے نتائج مودی اور خود بھارت کے لئےاسی طرح سے خطرناک ہو سکتے ہیں جیسے پاکستانی کلٹ کے کرتوت اس کے گلے پڑے ہوئے ہیں ۔ بھارتی انتخابات دنیا کی سب سے بڑی انتخابی مشق رہی ، اس میں سمجھنے، سیکھنے اور تجزیہ کرنے کے بے شمار پہلو ہیں ، جن پر آنے والے وقتوں میں بات ہوتی رہے گی۔ آج صرف کلٹ کی کارکردگی اور اس کے نتائج کا تجزیہ مقصود ہے کیونکہ ہم بھی کم وبیش ایسے ہی ایک کلٹ یا کلنک کو بھگت رہے ہیں ۔ مودی جب 2014میں بر سر اقتدار آیا تو وہ ہمارے کلٹ کی طرح اپنی ایک طویل بادشاہت کا منصوبہ رکھتا تھا ، جس کے لئے اس نے ہندوتوا کے احساس کمتری اور خونی جبلت کو استعمال کرتے ہوئے ملک کو ’’شدھ ہندو راشٹر‘‘ یعنی خالص ہندو ریاست بنانے کا اعلان کیا ، بالکل اسی طرح جیسے ہمارے ہاں ’’نئے پاکستان ‘‘ کا شوشہ انہی دنوں چھوڑا گیا تھا ۔ اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت کی افواج ، انٹیلی جنس اور عدلیہ تک میں چن چن کر متعصب ہندوتوا کے دہشت گردوں کو بھرتی کیا گیا ، اور منظم کیا گیا ، جو لوگ بھی ہندوتوا کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے انہیں چن چن کر نکال دیا گیا ، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ابھی انتخابات سے قبل ہائی کورٹس کے دوججوں نے برملا کہا کہ انہیں آر ایس ایس کا رکن ہونے پر فخر ہے ۔یہی وجہ ہے کہ بھارتی عدلیہ کے ہندوتوا برانڈ ججوں نے اپنے پروفیشنل ازم اور عدالتی روایات تک کو کلٹ کی قربان گاہ پر بھینٹ کردیا ، جس کی مثالیں ہم بھی اپنے ہاں روز کسی نہ کسی شکل میں دیکھتے رہتے ہیں ۔ مودی کلٹ نے اپنی جیت یقینی بنانے کی خاطر دوسرا اہم کام یہ کیا کہ ملک کا پورا میڈیا اپنے کنٹرول میں کرلیا ، طریقہ وہی اختیار کیا گیا جو پاکستانی کلٹ نے استعمال کیا کہ باوقاراور غیر جانبدار سینیئر لوگوں کو نوکریوں سے نکلوایا ، اپنے جہلاء کے جتھوں کو اہم عہدوں تک پہنچایا اور سوشل میڈیا پر اپنی پوری فوج منظم کرکے رائے عامہ کے جعلی سروے تک جاری کروانا شروع کردئے۔ یہ مودی کا گودی میڈیا ہی تھا ، جس کے بل پر مودی نے ’’اس بار چار سوپار ‘‘ کا احمقانہ نعرہ لگایا اور اپنی پاور بیس یو پی اورمہاراشٹر تک سے رسوا کن طریقے سے شکست کھاگیا ۔ کانگریس کے راہول گاندھی نے درست کہا کہ ’’آدھی عدلیہ اور تمام ایجنسیاں ہمارے خلاف تھیں ‘‘ اس سب کے باجوو مودی کا شرمناک طریقے سے اپنی بیس سے ہی ہارجانا اس بات کی علامت ہے کہ کلٹ پاکستان میں ہو یا بھارت میں یا کسی اور جگہ اس کی عمر بہت زیادہ نہیں ہوتی ، وہ ایک بار تو چھاجانے کی صلاحیت رکھتا ہے ، لیکن سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والوں کو جب کوئی جگانے والا مل جائے تو کلٹ پلٹ بھی جاتا ہے ۔
بھارتی الیکشن کا جائزہ لیں تو یہ بات ہمیشہ سے واضح ہے کہ بھارت میں چونکہ ہندی بولنے والوں کی اکثریت ہے ، لہٰذا حکومت اسی کی بنتی ہے جو ہندی علاقے یعنی یو پی اور ملحقہ ریاستوں میں اپنا اثرو رسوخ رکھتا ہو۔ جنوب مشرقی بھارت ہمیشہ سے مودی کا مخالف بلکہ دہلی کا باغی رہا ہے۔ غیر ہندی ریاستیں بھی کبھی مودی کی حامی نہیں رہیں ، لیکن اس کے گودی میڈیا نے اسی طرح سے اسے گمراہ کر رکھا تھا جیسے پاکستانی کلٹ کا سوشل میڈیا اپنے لیڈر کو ہر طرف ہرا ہرا یعنی اکثریت کے خواب دکھاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مودی کلٹ حکومت بنانے کے باوجود بری طرح سے ہار گیا ہے اور آنے والے دن اس کے لئے کوئی زیادہ خوشگوار نہیں ہو سکتے ۔ پاکستانی کلٹ کا تجزیہ کریں تو یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ بھارت میں آر ایس ایس پاکستانی کلٹ کی طرح ہی وائلنٹ ہو سکتی ہے ۔
مودی کیوں کامیاب نہ ہو سکا ؟اس کی سادہ سی وجہ ہے کہ کلٹ جتنا مضبوط ہوگا ، اس کا لیڈر اتنا ہی زمینی حقائق سے بے خبر اور خوشامدیوں کے رحم وکرم پر ہوگا ، ہمارے کلٹ لیڈر کو ہی دیکھ لیں ۔ دوسرا یہ کہ لوگوں کو اپنی آزادی بہت عزیز ہے وہ کسی کلٹ کو یہ حق نہیں دے سکتے کہ وہ ان کے معاشرے کو حبس زدہ بنا دے ۔ راہول نے صرف اتنا کیا کہ اپنے گھر سے نکلا بڑھکیں مارے بغیر لوگوں کو باور کروایا کہ ان کی آزادیاں خطرے میں ہیں ، لوگ جو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے ، انہوں نے اس پیغام کو سمجھا اور مودی کا دھڑن تختہ کردیا ۔
مودی کی ہار کوسمجھنے کی خاطر بھارت کے سٹرکچر کو سمجھنا ضروری ہے ۔بھارت خود کو وفاق کے بجائے یونین قرار دیتا ہے،جس کے کل 36یونٹ ہیں ، 28 صوبے اور 8 وفاقی علاقے، ان یونٹس میں آبادی یا رقبے کے حوالہ سے کچھ بھی ایک تناسب میں نہیں ۔ سب سے بڑ ا صوبہ جو مودی کا پاور بیس تھا ، جہاں مودی نے رام مندر جیسے ڈرامے رچائے ، مسلمانوں کے خلاف گھٹیا مہم چلائی ، اس کی آبادی پاکستان کل آبادی سے معمولی سی کم یعنی 22 کروڑ ہے ۔ اسی طرح ایک دوسرا یونٹ جسے سب سے چھوٹا قرار دیا جاتا ہے ،’’ لکھشا دیپ پالکا وپ‘‘ محض 58 ہزار نفوس پر مشتمل ہے ۔ ان 36 یونٹوں میں سے 12 یعنی میزورام، میگھالے، تری پورہ، منی پورہ، ناگالینڈ، پانڈ بچری، گوا، ہماچل پردیش، لکادیپ،انڈیمان اور سکم اتنے چھوٹے ہیں کہ ان سب کی آبادی مل ملا کر ڈیڑھ دو کروڑ بھی نہیں بنتی۔ یہ کل 12یونٹ ہیں ، جو مختلف سیاسی ضروریات کے تحت قائم کئے گئے ، اس کے باوجود یہ سب دہلی کے مخالف ہیں ۔ آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بھارت کی آدھی سے زیادہ آبادی ہندی بیلٹ میں ہے۔یوپی میں22 کروڑ، بہار11کروڑ، مدھیہ پردیش8 کروڑ، راجستھان7 کروڑ ، جھاڑکھنڈ 4کروڑ، ہریانہ ساڑھے 3کروڑ، چھتیس گڑھ 3 کروڑ، دہلی اڑھائی کروڑ، اترکھنڈ ڈیڑھ کروڑ، ہماچل پردیش 80 لاکھ، یعنی کل ملا کے 63 ، 64 کروڑ اور مغربی بنگال، اڑیسہ ، مہاراشٹر میں کروڑوں کی تعداد میں ہندی اردو بولنے والوں کو ملالیا جائے تویہ تعداد اور زیادہ ہو جاتی ہے۔ مشرقی پنجاب میں بھی ہندی بولنے والوں کی ایک تعداد موجود ہے۔ مودی کلٹ کا تمام انحصار یوپی اور ان ہندی بولنےو الوں پررہا ہے۔ یو پی میں انتہاپسند ’’یوگی‘‘ کی حکومت ہے جسے مودی کا متبادل کہا جاتا ہے ۔ بابری مسجد شہید کرنے اور رام مندر بنانے میں ان دونوں کا کردار تھا اور وہی کردار انہیں لے ڈوبا ۔(گزشتہ سے ہیوستہ ) بھارت کے جنوب مشرقی صوبے جن میں ریڈ کوریڈور کی 9ریاستیں آندھرا پردیش، بہار، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، اڑیسہ ، تلنگانہ اور مغربی بنگال شامل ہیں ، ان میں سے صرف مہاراشٹر کو بی جے پی کے پاور بیس کی حیثیت حاصل تھی ، بقیہ 8ریاستوں میں اس کا پہلے ہی کوئی کردار نہیں تھا کیونکہ وہاں دہلی سے آزادی کی تحاریک بہت مضبوط ہیں ۔ اس کے علاوہ شمال مشرق میں اروناچل پردیش، آسام، میگھالیہ، منی پور، میزورام، ناگالینڈ اور تریپورہ کی سات ریاستیں جنہیں سیون سسٹرز کہا جاتا ہے ، یہ بھی دہلی سے آزادی کی جنگ لڑ رہی ہیں ، اور یہاں بھی بی جے پی کا پہلے سی ہی کوئی کردار نہیں ہے۔ جنوب مشرق اور شمال مشرق میں اگر کوئی اکا دکا سیٹ مودی کلٹ کی تھی بھی تو اب اس کا مکمل صفایا ہو چکا ہے۔ دوسری جانب ہندی بیلٹ میں بھی ا س کے لئے حالات سازگار نہیں رہے ، جس کی سب سے بڑی وجہ مسلمانوں کاخاموش اتحاد ہے ، یہ اتحاد اس لئے بھی موثر رہا کہ باقی بھارت کے مقابلے میں یہاں مسلمانوں کی شرح آبادی زیادہ ہے ، بعض شہروں میں تو یہ شرح 47فیصد تک ہے ، یہاں کے مسلمانوں نے طے کرلیا تھا کہ مودی کلٹ کو ووٹ نہیں دینا، چاہے امید وار کوئی مسلمان ضمیر فروش ہی کیوں نہ ہو ، اس اتحاد کا ذمہ دار بھی مودی خود ہے ، جس نے نا صرف یہ کہ یوگی اور امیت شا سے مل کر مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا تھا بلکہ اس الیکشن مہم میں بھی مسلمانوں کے لئے مسلسل ’’باہر والے ‘‘ کی پھبتی کستا رہا ہے ۔ بابری مسجد کو شہید کرنا ، رام مندر تعمیر کرنا ، دیگر تاریخی مساجد کو شہید کرنے کی تیاریاں ، مدارس کی بندش ، مسلمانوں کے ہجومی قتل کی مہم سے لے کر خواتین کے خلاف توہین آمیز اقدامات اور بدزبانی کا طوفان تھا ، جس نے مسلمانوں کو مجوبر کردیا کہ وہ کسی لیڈر کا انتظار نہ کریں ، اپنے طور پر ہی فیصلہ کریں ، اس خاموش نفرت نے کام کیا اور مودی کا اپنے یوگی سمیت دھڑن تختہ ہوگیا ۔ صرف یوپی ہی نہیں، اپنے دوسرے پاور بیس مہاراشٹر سے بھی جیتنے میں ناکام رہا ہےجو زیادہ خطرناک ہے ، کیونکہ وہاں علیحدگی کے اثرات تیزی سے بڑھیں گے ۔ بھارت کے ان انتخابات کا سب سے حیران کن نتیجہ یہ رہا کہ بھارت کے تین’’ باغی ‘‘ بھی الیکشن جیت چکے ہیں جن میں فرید کوٹ کی مشہور سیٹ سے اندرا گاندھی کے قاتل بینت سنگھ کا بیٹا سربجیت سنگھ اور کشمیر سے جہادی فنڈنگ کے الزام میں قید رشید خان شامل ہیں ۔
مودی کے یوں ہارجانے کے نتائج کیا ہونگے؟ یہ ایک اہم سوال ہے ، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سب سے پہلے تو حکومت کا استحکام اہم مسئلہ رہے گا ۔ بی جے پی حکومت تو بنالے گی لیکن اتحادیوں سے مل کر ، اکثریت اتنی کم ہے کہ ایک آدھ ممبر گیا تو حکومت ختم۔ سب سے بڑا اثر یہ پڑے گا کہ بھارت کو ’’شدھ ہندو راشٹر‘‘ بنانے کے منصوبے کا کریا کرم ہوگیا ہے ۔ اس کے لئے دوتہائی اکثریت درکار تھی ، جو اب محال است وخیال است والا معاملہ لگتا ہے ۔ نوکریوں میں مسلمانوں کا کوٹہ ختم کرنے کا شیطانی منصوبہ بھی اپنی موت آپ مرگیا، مسلمانوں کی شہریت ختم کرنے کی آئین سازی بھی دم توڑ گئی ۔ دوسری جانب کشمیر ی جو غیر قانونی بھارتی تسلط سے آزادی کے لئے عظیم جدوجہد کر رہے ہیں ، ان کا واحد مطالبہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کی فراہمی ہے ، نام نہاد بھارتی انتخابات ان کے لئے گوکہ کوئی معنی نہیں رکھتے تاہم اس مرتبہ انہوں نے صرف اس وجہ سے بھارتی انتخابات میں دلچسپی ظاہر کی تاکہ ووٹ کے ذریعے پر امن طریقے سے بی جے پی کو مسترد کرسکیں اور انہوں نے یہ کرکے دکھا بھی دیا ۔ جہادی فنڈنگ کے الزام میں جیل میں قید انجینئر رشید کی شاندار فتح مودی اور اس کے کلٹ بھارتیہ جنتاپارٹی کے لئے ایک واضح پیغام ہے کہ کشمیرمیں اس کی کٹھ پتلیوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ۔ انجینئر رشید حریت پسند ہیں ،غیر قانونی بھارتی قبضے کے ناقد رہے ہیں اور وہ استصواب رائے کا برملا مطالبہ کرتے ہیں ۔کشمیری دماغ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ انتخابی نتیجہ کشمیر کی حق خود ارادیت کی جدوجہد کی تاریخ میں ایک اہم پیشرفت ہے۔ نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام اپنے حقوق اور آزادی کا مطالبہ کرنے کے لیے الیکشن سمیت ہر دستیاب پلیٹ فارم کو استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں۔کشمیریوں نے انجینئر رشید کو ووٹ دے کر دہلی کو واضح پیغام دیا ہے کہ ’’وہ ہماری امنگوں کا احترام کرے اور ہمیں حق خود ارادیت دے، کشمیری اس کا کوئی حربہ بھی کامیاب نہیں ہونے دینگے ۔‘‘ کس قدر دل چست مماثلت ہے کہ ایک جانب ہمارا کلٹ بھی ان دنوں اپنے زخم چاٹ رہا ہے ، جس نے 5 اگست 2019 کے مودی کے فیصلے پر کہا تھا ’’ جو کشمیر میں اس وقت مسلح جہاد کرے گا ، وہ دشمن ہے ۔ ‘‘ اور کوئ عملی اور سخت قدم اٹھانے کے بجائے دس منٹ کے علامتی احتجاج سے کشمیر پر مودی کے اقدامات کو جواز بخشا اور دوسری جانب 5اگست کو کشمیریوں کے حقوق چھیننے والا مودی کلٹ بھی رسوا ہو چکا ہے ۔
بھارتی الیکشن کے جائزے اور ان نتائج کے بھارت میں ممکنہ اثرات کے تجزیہ کے بعد لازم ہے کہ یہ بھی دیکھا جائے کہ اس کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔ مودی کی سرشت کو دیکھا جائے تو اپنی ہر ناکامی کو چھپانے کی خاطر پاکستان کے خلاف محاذ آرائی بڑھانے اور فالس فلیگ آپریشن کے ذریعہ سے انتہا پسند ہندووں کی ہمدردیاں حاصل کرتا رہا ہے ، یہ الیکشن نتائج اس کے لئے اتنی بڑی ہزیمت ہے کہ ان کی وجہ سے اس کے تمام مستقبل کے منصوبے خاک میں مل گئے ہیں ، لہٰذا اس امر کاخطرہ موجود ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کوئی پنگے بازی ضرورکرے گا۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ پلوامہ کی طرح کا کوئی ڈرامہ کرکے ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کر سکتا ہے ۔ ہماری طرف مجیب بننے کے شوقین اور پاکستان کے خلاف بھارت کے کسی بہت بڑے اقدام کے انتظار میں بیٹھے نمک حرام عناصر کے لئے کوئی اچھی خبریں نہیں ہیں ،اگر مودی پاکستان کارڈ کھیلتا بھی ہے تو پاکستان اس کا منہہ توڑ جواب دینے کو تیار بیٹھا ہے ، اس سے نا صرف مودی بلکہ یہاں موجود اس کے بہی خواہ بھی ششدر رہ جائیں گے ۔