نیویارک 15فروری (نیوز ڈیسک )نیویارک میں قائم صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے بھارتی حکام پرزوردیا ہے کہ وہ محکمہ انکم ٹیکس کی طرف سے نئی دلی اور ممبئی میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے دفاتر پر چھاپوں کے بعد صحافیوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کریں ۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق کمیٹی کے ایشیا پروگرام کی کوآرڈینیٹربہ لیہ یی نے ایک بیان میں کہاہے کہ بھارت میں بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے ایک دستاویزی فلم کے بعد مارے گئے ہیں جس میں گجرات کے مسلم کش فسادات میں وزیر اعظم نریندر مودی کے کردار کوبے نقاب کیاگیا تھا۔انہوں نے کہا، “بھارتی حکام نے پہلے بھی تنقیدکرنے والے میڈیا ہائوسز کو نشانہ بنانے کے لیے ٹیکس تحقیقات کو ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا ہے اور انہیں بی بی سی کے ملازمین کو ہراساں کرنا فوری طور پر بند کرنا چاہیے۔بی بی سی کے مطابق،انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے حکام نے ٹیکس کی مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے بہانے انکے نئی دلی اورممبئی میں دفاتر کو سیل کر دیاہے۔ ٹیکس حکام نے نیوز چینل NDTVکو بتایا کہ وہ بی بی سی کے اکائونٹس کی جانچ پڑتال کی جارہی ہے ۔بہ لیہ یی نے کہاکہ بی بی سی کے ملازمین کے حوالے سے متعدد رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ حکام نے ملازمین کے لیپ ٹاپس اور موبائل فونز ضبط کر لیے ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارتی ٹیکس حکام نے 2021میں نیوز لانڈری اور نیوز کلک پر حکومتی پالیسیوں اور نریندر مودی کے ہندوتوا حمایتوں پر تنقید کے چھاپے مارے تھے ۔
واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے یوٹیوب اور ٹویٹر کو حکم دیا تھا کہ وہ بی بی سی کی دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم کی پہلی قسط شیئر کرنے والے لنکس کو ہٹا دیں جس میں نریندر مودی کے گجرات میں 2002کے مسلم کش فسادات میں کردار کو بے نقاب کیا گیا تھا جب وہ ریاست کے وزیراعلی تھے۔