اسلام آباد(نیوز ڈیسک ) انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت نے انسانی حقوق کے محافظوں اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق دبانے اور اپنے مخالفین کو خاموش کرانے کے لیے انسداد دہشت گردی اور منی لانڈرنگ سمیت جابرانہ قوانین کا استعمال کیا جن میں طویل مدت تک حراست میں رکھنا اور ماورائے عدالت ہلاکتیں شامل ہیں ۔
کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اسٹیٹ آف دی ورلڈ ہیومین رائٹس 2022/23کے عنوان سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت نے جان بوجھ کر مذہبی اقلیتوں کے خلاف کریک ڈائون کیا اور سیاسی رہنمائوں اور عوامی عہدیداروں کی طرف سے ان کے خلاف نفرت کا واضح اظہار ایک عام سی بات تھی اور انہیں سزا تک نہیں دی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ مدت کے دوران مسلم خاندانوں کے گھروں اور کاروبار مسمار کرنے میں انہیں مکمل حکومتی سر پر ستی حا صل تھی ۔رپورٹ کے مطابق اقلیتوں کے حقوق کا دفاع کرنے والے پرامن مظاہرین کو امن عامہ کیلئے خطر ے کے طور پر پیش کیاگیا۔مخالفین کو خاموش کرانے کیلئے انسداد دہشت گردی کی قانون سازی سمیت جابرانہ قوانین کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ حکام نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے انسانی حقوق کے محافظوں کو ہراساں کیا ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے واضح کیا کہ بھارت میں قبائلیوں اور پسماندہ کمیونٹیز بشمول دلتوں کو تشدد اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹ میں مزیدکہا گیا ہے کہ ہراساں کرنے اور دھمکیاں دینے کے ایک مسلسل طریقہ کار کے تحت سول سوسائٹی کی تنظیموں اور انسانی حقوق کے محافظوں بشمول کارکنوں، صحافیوں، طلبا اور ماہرین تعلیم پر غیر قانونی اور دیگر سخت پابندیاں عائد کی گئیں۔14جولائی کو پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھانے پارلیمانی مباحثوں کے دوران پارلیمنٹ کے اپوزیشن ممبران کی تقاریر کو روکنے کیلئے متعدد عام الفاظ پر پابندی عائد کر دی تھی، جن میں دیگر کے علاوہ، کرپٹ، جنسی طور پر ہراساں کرنا، مجرم، آنکھوں کی دھول، نااہل اور منافقت شامل ہیں۔گزشتہ سال ستمبر میں، این جی او پاپولر فرنٹ آف انڈیا اور اس سے ملحقہ تنظیموں کیخلاف بھارت بھر میں بڑے پیمانے پر چھاپے مارے گئے ، جسے بعد میں دہشت گردی کی فنڈنگ اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت ایک غیر قانونی انجمن قرار دیا گیا تھا۔ تاہم ان چھاپوں کے دوران گرفتار ہونے والوں کیخلاف ان الزامات پرمقدمات چلائے گئے ۔بھارتی سپریم کورٹ نے اختیارات سے متعلق انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ (2002) کی دفعات کو برقرار رکھا تھا۔گرفتاری، جائیداد کی ضبطی سول سوسائٹی کو دبانے اور اختلاف رائے کو محدود کرنے کیلئے ان اختیارات کا بار بار استعمال کیا گیا ہے۔پورے سال کے دوران، حکام نے معمول کے مطابق بین الاقوامی سفری پابندیوں کا استعمال انسانی سمیت آزاد آوازوں کو دبانے کے لیے کیا۔انسانی حقوق کے کارکن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سابق سربراہ آکار پٹیل، صحافی رعنا ایوب اور کم از کم دو کشمیری صحافی جو ہندوستان کی انسانی حقوق کی صورتحال پر بیرون ملک بات کرنے والے تھے،بھارتی حکومت نے انہیں بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا۔بھارتی حکومت نے ظالمانہ اور جابرانہ قوانین کے تحت کارروائی کیلئے مناسب طریقہ کار اپنائے بغیر مانی گرفتاریوں کا سہارا لے کر ناقدین کے خلاف کریک ڈان کیا ۔28 جون کو آزاد حقائق کی جانچ پڑتال کرنے والی ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو نئی دہلی میں پولیس نے اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کی مذمت کرنے اور بڑھتی ہوئی سنسرشپ پر تنقید کرنے پر گرفتار کیا۔ظالمانہ اور جابرانہ قوانین کے تحت ریاست مہاراشٹر میں انسانی حقوق کے گیارہ کارکنوں کو بغیر مقدمہ چلائے حراست میں رکھا گیا جن میں ماہرین تعلیم شوما سین اور ہانی بابو ، قبائلی حقوق کے کارکن مہیش راوت، شاعر سدھیر دھاولے، وکیل سریندر گڈلنگ، شہری حقوق کے کارکن رونا ولسن، ارون فریرا اور ورنن گونسالویس اور ثقافتی گروپ کبیر کلا منچ کے تین ارکان رمیش گائچور، جیوتی جگتاپ اور ساگر گور کھے شامل تھے ۔صحافی صدیق کپن اور دیگر 3صحافیوںکو بغاوت کے قوانین اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یو اے پی اے کے تحت نظر بند رکھا گیا۔بھارتی حکام نے آزادی اظہار اور پرامن اجتماع پر نئی پابندیاں عائد کر دیں۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک ریاستی حکم کو برقرار رکھا جس میں تمام مظاہروں کو ریاست کے دارالحکومت بنگلورو کے ایک مخصوص علاقے تک محدود کردیا گیا تھا۔ ریاست گجرات کی پولیس نے انسانی حقوق کے کارکن سندیپ پانڈے کو سات دیگر افراد کے ساتھ حراست میں لے لیا جو ایک مارچ میں شرکت کرنے والے تھے جس میں گینگ ریپ کی متاثرہ بلقیس بانو سے عوامی معافی کا مطالبہ کیا گیا تھاجنہیں گجرات حکومت نے جیل سے رہا کیا تھا۔ بھارتی حکومت نے مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف غیر متناسب طور پر فوجداری قوانین کا استعمال کیا کیونکہ پولیس معمول کے مطابق مسلمانوں کو نماز پڑھنے، جائز کاروباری لین دین کرنے اور گائے کا گوشت کھانے کے جرم میں گرفتار کرتی ہے۔ہریانہ، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، کیرالہ اور گجرات میں کچھ ہندوتوا گروپوں کی طرف سے مسلمانوں کے کاروبار کے معاشی بائیکاٹ کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔ نفرت انگیز جرائم بشمول دلتوں اور آدیواسیوں کے خلاف تشدد کا ارتکاب مکمل استثنیٰ کے ساتھ کیا گیا۔ 2021میں شیڈولڈ کاسٹ سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف 50ہزارسے زیادہ مشتبہ جرائم اور آدیواسی لوگوں کے خلاف 9ہزارسے زیادہ جرائم رپورٹ ہوئے۔فہد شاہ، آصف سلطان اور سجاد گل سمیت کئی کشمیری صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔ مقامی عدالتوں سے ضمانت ملنے کے بعد، انہیں کالے قانون یو اے پی اے کے تحت تقریبا فورا ہی دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ صحافی آکاش حسن اور ثنا ارشاد مٹو کو امیگریشن حکام نے عدالتی حکم، وارنٹ یا تحریری وضاحت کے بغیر بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اپریل 2020اور مارچ 2022کے درمیان جموںو کشمیر میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں نہتے کشمیریوں کے قتل عام کا تناسب سب سے زیادہ رہا۔رپورٹ کے مطابق قابض اہلکاروں نے سرکاری سرپرستی میں مقبوضہ علاقے میں جنسی اور گھریلو تشدد کا سلسلہ جاری رکھا۔ ریاست کرناٹک کی حکومت نے سرکاری تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب پر پابندی عائد کر دی جس کی وجہ سے مسلم طالبات کو اپنی تعلیم ترک کرنا پڑی ۔