نئی دہلی(نیوز ڈیسک ) مودی حکومت نے کشمیر اور دیگر اہم موضوعات پر رپورٹنگ کرنے والی ایک فرانسیسی صحافی کوجو مودی کی ہندوتوا حکومت کے نشانے پر تھی، بھارت سے بے دخل کردیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق وینیسا ڈوگناک بھارت میں سب سے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والی غیر ملکی نامہ نگار ہیں۔ انہوں نے اپنی بے دخلی کا اعلان اس وقت کیا جب بھارتی حکومت نے گزشتہ ماہ ان کی رپورٹنگ پر مبینہ خدشات کے باعث انکا اوورسیز سٹیزن آف انڈیا (OCI) کارڈ دوہفتوں کے لئے منسوخ کردیا۔ایک بیان میں وینیسا ڈوگناک نے کہا کہ وہ آنسوئوں کے ساتھ اپنی بے خلی کااعلان تحریرکر رہی ہیں۔انہوں نے کہاکہ آج میں بھارت چھوڑ رہی ہوں، وہ ملک جہاں میں 25سال پہلے ایک طالب علم کے طور پر آئی تھی اور جہاں میں نے بطور صحافی 23سال کام کیا۔ ڈوگناک کو بھارتی وزارت داخلہ نے مطلع کیا ہے کہ ان کا OCI کارڈ دو ہفتوں کے اندر منسوخ کیا جارہا ہے۔بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزارت کے نوٹیفکیشن میں کارڈ منسوخی کی مختلف وجوہات درج کی گئی ہیں جن میںبد نیتی پر مبنی رپورٹنگ سے لے کر بھارت کے بارے میںمنفی تاثرپیدا کرنا، انتشار پھیلانا، مخصوص علاقوں میں سفر کی اجازت نہ لینا اور پڑوسی ممالک کے بارے میں رپورٹنگ کرنا شامل ہے۔میڈیا میں نوٹس کی رپورٹنگ کے بعد وینیسا ڈوگناک نے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بھارتی حکومت نے زبردستی ملک چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔ رپورٹرز ودآئوٹ بارڈرز(آر ایس ایف)نے اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں فرانسیسی صحافی کی جبری بے دخلی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکام نے ان کی بے دخلی کے لیے جو طریقہ استعمال کیا وہ بھارت میں صحافیوں پر بڑھتے ہوئے ظلم و ستم کی عکاسی کرتا ہے۔آر ایس ایف نے کہاکہ ایک تجربہ کار پیشہ ور صحافی کو دو دہائیوں کے بعد بھارت چھوڑنے پر مجبور کرنا وزیر اعظم نریندر مودی کے دور میں پریس کی آزادی کی ایک انتہائی تاریک اور افسوسناک تصویر کو ظاہر کرتا ہے۔ تنظیم نے کہاکہ عام انتخابات میں دو مہینے باقی ہیں، غیر ملکی نامہ نگاروں کی آواز دبائی جارہی ہے جوبھارت میں پیشہ ورانہ انداز میں اپنے فرائض نبھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم وینیسا ڈوگناک کے ساتھ ناقابل قبول برتا ئو اور مضحکہ خیز الزامات اورصحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کی مذمت کرتے ہیں ۔یہ بات قابل ذکرہے کہ 2014میں مودی کے ملک کا وزیر اعظم بننے کے بعد سے بھارت میں میڈیا کی آزادی پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور ایسے صحافی جو حساس موضوعات پر بات کرتے ہیں اور ہندوتوا نظریے کی حمایت سے انکار کرتے ہیں انہیں اکثر حکومتی مظالم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گزشتہ سال برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو 2002 کے گجرات مسلم کش فسادات میں مودی کے کردار پر سوال اٹھانے والی دستاویزی فلم نشر کرنے پر نشانہ بنایا گیا تھااور بھارت میں بی بی سی کے دفاتر پرمحکمہ ٹیکس نے چھاپے مارے تھے۔