سیف اللہ خالد /عریضہ
آقائے دوعالم ،النبی الخاتم ، رحمۃ اللعالمین سیدنا محمد ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ ’’ تم سے پہلی قومیں اس لئے برباد ہوئیں جب ان کا کوئی بڑا امیر و کبیر جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی معمولی سا آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی۔ (بخاری، 4304)، ہمارا المیہ تو اس سے بھی بڑا اور برا ہے کہ جب کوئی بڑام جرم کرتا ہے تو سزا رہی ایک طرف وہ مظلوم کو دہشت زدہ بھی کرتا ہے ، اسے تشدد کا نشانہ بنا کر ، تذلیل کرکے ، اپنی دو ٹکے کی طاقت سے نشان عبرت بنانے میں بھی کوئی کمی نہیں چھوڑتا۔ ابھی کل کی بات ہے ایک مجبور ،مظلوم اوررنجیدہ ودلگرفتہ باپ پریس کانفرنس کر رہا تھا ، اس کے لخت جگر کو کسی’’لخت فرعون ‘‘نے اپنے باپ کی طاقت کے نشے میں کچل ڈالا،مار ڈالا ۔ دوسال کا عرصہ گزر جانے کے باجود اس بھرے پرے ملک میں کوئی نہیں جو اس کی داد رسی کر سکے۔وہ بے بس، بےکس و بے نوا بلکہ بے چارہ عام آدمی چیخ رہا ہے ، دہائی دے رہا ہے ، قاضی القضاء کا نام لے کر ، وزہر اعظم اور آرمی چیف کا نام لے کر صدائے فریاد بلند کر رہا ہے ، لیکن کوئی نہیں جو کان دھرے ، کوئی نہیں جو اس کے درد کا درماں کرسکے ، حد تو یہ کہ آزاد ، بعض اوقات مادر پدر آزاد میڈیا میں بھی اتنی سکت نہیں کہ اس کی آواز بن سکے ، اسے کوریج ہی دے سکے ، کیونکہ ملزم کے طور پر جو نام لیا جا رہا ہے ،وہ اتنا ’’مقدس‘‘ ہے کہ انگلی اٹھائی ہی نہیں جا سکتی ، اس نام پر توکسی کو چھینک بھی آجائے تو توہین کا قانون لاگو ہوتا ہے ، قتل کی بات کون کرے ؟ مظلوم باپ بھلے کہتا رہے کہ جس گاڑی سے کے بیٹے کو کچل کر مارڈالا اس کی سی سی ٹی وی فوٹیج دستیاب ہے ، گواہ موجو دہیں ، شواہد مہیا ہیں ، وہ شائد بھول رہا ہے ، بلکہ یقینا بھول رہا ہے کہ اس کے پا س وہ حیثیت نہیں ہے ، جو اسے داد رسی کا مستحق بنا سکے ۔ حیرت نہیں کہ ہم ممبر ومحراب سے لے کر اونچے ایوانوں اور عدالت کی منقش، مقدس محرابوں تک سے ہر آن عدل و انصاف کی صدا بلند ہوتے سنتے ہیں، مظلوم کی حمائت کے نعرے بھی بلند کئے جاتے ہیں مگر جب معاملہ کسی’’ خاص‘‘ کا آجائے تو سیاسی ، ذاتی اور گروہی تضادات تک کونظر انداز کرتے ہوئے سب’’ خواص‘‘ اپنے ہم قبیلہ ’’خاص ‘‘ کو بچانے کو سب متحد ہوجاتے ہیں، گونگے بہرے بن جاتے ہیں ، کوئی شکائت،کوئ فریاد ان کے کانون تک پہنچتی ہی نہیں۔انصاف کا مطالبہ کرنے والا اگر عام آدمی ہو ، کسی محنت کش مقتول شکیل تنولی کا محنت کش باپ رفاقت تنولی ہو ، تو لازم ہے کہ اسے سمع خراشی پر سزا بھی دی جائے۔ اس کے پیدا ہونے کی سزا ، اسے اس نظام میں انصاف کی امید رکھنے کی سزا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے بیٹے کی لاش کندھے پر اٹھائے اس کے لئے انصاف مانگنے کی سزا ۔پولیس اگر اسے دھمکا رہی ہے ، ملزمہ کا بھائی غنڈے ساتھ لا کر دھمکیاں دیتا ہے ، تشد کرتا ہے تو اس میں نیا کیا ہے ؟اس معاشرے کی ریت یہی ہے ۔ایک ایسا معاشرہ جہاں عدالتیں ’’آزاد ‘‘ ہیں ، من مانی کی حد تک آزاد، عوام کے مقدمات اور مسائل کا انبار ہوتے ہوئے بھی پورا پورا دن سیاست سیاست کھیلنے میں آزاد ، پولیس متحرک ہے ، ہر طاقت ور کے مفادات کی نگہداشت کے لئے متحرک ، مقننہ موجود ہے ، شائد صرف اپنے سیاسی ، گروہی مفادات کے تحفظ کی حد تک مستحکم اور آزاد ، طاقت ور انٹیلی جنس ادارے ،ہر گھڑی ہرآن نگران ہیں ، مگر ان سب کا ایک عام آدمی محنت کش کے بیٹے کے قتل سے کیا لینا دینا؟ اتنا کافی نہیں کہ شکیل تنولی کا باپ ابھی تک زندہ ہے ، ورنہ بعض مقدمات میں تو مدعی کو خاموش بھی کروادیا جاتا ہے ۔
پاکستان کے عدالتی نظام میں انصاف کی تاخیر سے فراہمی ویسے تو روایتی ہے لیکن بعض ایسے مقدمات بھی سامنےآرہے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوامی فالح وبہبود اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے بنائے گئے سزا وجزا کے قوانین میں بے بس شہریوں پر ترس کھانے کے عالوہ کچھ نہیں کیا جاسکتا۔بدقسمتی سے عدالتیں مخصوص سیاسی مقدمات کو تو ترجیحی بنیادوں پر سنتی ہیں لیکن عام آدمی کے مقدمات التوا کا شکار ہیں۔ انصاف کا تاخیر سےملنا دراصل ناانصافی ہے۔کئی شہری بے گناہ جیلوں میں قید جبکہ بیشتر بڑے بڑے خطرناک مجرم آزاد گھوم رہے ہیں۔نظام عدل سے وابستہ معتبر شخصیات کے جلد انصاف کے دعووںسے اخبارات کے صفحات بھرے پڑے ہیں لیکن عملی اقدامات کا آئے روز عدالتوں کے سامنے ہی پول کھلنے کا سلسلہ بھی تواتر سے جاری ہے، جو انصاف کے نظام کو چیلنج کر رہا ہے لیکن اس طرح کے مقدمات سامنے آنے کے بعد پھر ایک طویل خاموشی چھا جاتی ہے۔ اس گمبھیر چپ کو پھر رفاقت تنولی کے باپ کی فریاد بھی ختم نہیں کر سکتی کہ ’’مجھے اگر اب بھی انصاف نہ ملا تو سپریم کورٹ کے سامنے خود کو آگ لگا لوں گا۔‘‘ کوئی سنے نہ سنے، مظلوم باپ کی فریاد انصاف کے ایوانوں سے ٹکرا کر بے اثر بے اثر ہی کیوں نہ ہوجائے ، میرے رب نے یہ فریاد سن لی تو کوئی نہیں بچ سکے گا ؟ کوئی بھی نہیں ۔شکیل تنولی اور اس کے دوست کا دلخراش حادثہ،نظام انصاف کا امتحان ہے ، جس میں اب تک پوری ریاست ناکام کھڑی ہے ، ایک مجرم کی حیثیت سے ناکام ۔مظلوم باربار سوال اٹھا رہا ہے کہ قاتلہ کا نام، چہرہ، جرم کی سی سی ٹی وی ویڈیوز سب منظرِ عام آگئی ہیں۔ کوئی ایکشن یوں نہیں لیا جاتا ؟ رفاقت تنولی تو شائد اپنے نصیبوں کو رو دھو کر چپ کرجائے ، لیکن جو سوال اس کی بے بسی سے پیداہوئے ہیں ، وہ جواب چاہتے ہیں ، اور ان کا جواب دینا پڑے گا ۔ بتانا پڑے گا کہ با اثر طبقات کا ا نصاف کے کٹہرے میں لانا ناممکن کیوں؟مظلوم باپ کی فریاد انصاف کے ایوانوں سے ٹکرا کر بے اثر کیوں ہوجاتی ہے ؟ان خاک نشینوں کو کبھی انصاف ملے گا بھی یا یہ اسی طرح تڑپتے رہ جائیں گے ۔ اگر شکیل تنولی کی جگہ میرا بچہ ہوتا تو؟ شائد فیض نے ایسے ہی کسی لمحے کہا تھا :
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخن قاتل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخی بر لب خنجر نہ رنگ نوک سناں
نہ خاک پر کوئی دھبا نہ بام پر کوئی سراغ
نہ صرف خدمت شاہاں کہ خوں بہا دیتے
نہ دیں کی نذر کہ بیعانہ جزا دیتے
نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ھوتا
کسی علم پہ رقم ھو کے مشتہر ھوتا
پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو
کسی کو بہر سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خوں خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
یہ خوں خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
مناظر: 919 | 4 Jul 2024