ہفتہ‬‮   27   جولائی   2024
 
 

جنگ ہے تو پھر جنگ ہی سہی ۔۔۔۔۔

       
مناظر: 670 | 4 Jun 2024  

عریضہ /سیف اللہ خالد

سیاست میرا موضوع نہیں ،یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں ، انیس بیس کے فرق کے ساتھ ۔ ان کے لئے دوستوں سے تعلق بگاڑنا تو رہا ایک جانب کسی کی رائے سےاتفاق یا اختلاف کرنا بھی وقت کا زیاں بلکہ گھاٹے کا سودا ہے ۔ وطن ریڈلائن ہے ، اس کے لئے کسی بھی حد تک جایاجاسکتا ہے۔اس کے لئے میرے آباء نے قربانیاں دی ہیں ، بھرے پرے گھر چھوڑے ہیں ، ہجرت کا دکھ جھیلا ہے ، اپنوں کی گردنیں کٹتی اورلاشوں کی بے حرمتی دیکھی ہے ،زمانے کے ستم سہے ہیں ،ماں باپ کی گود سے چھین کر بچوں کو نیزوں کی انیوں میں پروئے جانے کے دلدوز سانحات سے گزرے ہیں ،ہمارے آباء وہ نہیں جو سازو سامان سے لدے پھدےٹرینوں اورجہازوں پر بیٹھ کر محفوظ اور مزے سے پاکستان آئے اور جھوٹے کلیم داخل کرکے اثاثہ جات پر قابض ہوگئے۔ ہمارے آباء نے اس دور میں لاکھوں ، کروڑوں کی جائدادیں چھوڑیں ، تہی دست وتہی دامن دشمن کی تلواروں ، نیزوں بھالوں کے سائے میں پاپیادہ سینکڑوں میل کاسفر اس حال میں طے کیا کہ جسم زخموں سے چور تھے ، پیروں کی جلد ادھڑ چکی تھی ، کھانے کو درختوں کے پتے تھے اور پینے کو گندے جوہڑوں کا آلودہ پانی کہ راستے کے کنویں غیرت مند بیٹیوں کی لاشوں سے اٹےپڑے تھے یا ان میں زہر ڈال دیاگیا تھا ۔ نانی، دادی اور خاندان کے بزرگوں سے سنی داستانیں ، ان کی آنکھوں میں بہتے آنسووں سمیت حافظے میں نقش ہیں ، یہ کوئی قصے کہانیاں نہیں جنہیں بھلادینا ممکن ہو ، یہ ہڈ بیتی ہیں ،میرے ماضی کا قیمتی اثاثہ ،جو میرے بڑوں نے میرے سپرد کیا، میں اپنی اولاد کو منتقل کر رہا ہوں ، انشا اللہ وہ اس امانت کو اپنی اولادوں کے سپرد کریں گے ۔یقین ہے کہ جب تک یہ اثاثہ منتقل ہوتارہے گا ، وطن پرستی کی لو مدھم نہیں پڑے گی ، دشمن سے نفرت اور انتقام کا بھانبڑ دھیما نہیں ہو گا۔ یہی دو جذبے اس ملک کے استحکام ، ترقی اور عروج کی ضمانت ہیں ، اور یہی اس عہد کا جہاد بھی ۔ صرف بزرگوں پر ہی کیا موقوف ہم نے ، میری نسل نے بھی اس وطن کے لئے جانیں دی ہیں، زخم، کھائے ہیں ، جب ہمارے ہم عمر گائوں میں کنچے کھیلتےتھے ، ہم نے وطن کی خاطر بندوق اور گولی کا کھیل سیکھا اور اپنایا،جس عمر میں بچے تنہا گلی کی نکڑ تک جانے سے ڈرتے ہیں ، ہم وطن پرستوں نے بیابانوں کو آباد کیا ، تاریک اور طوفانی راتوں میں اللہ کی مدد اور ایمان کی روشنی سے جلا پائی، دشمن کی سرزمینوں پر جا کر نبرد آزما ہوئے ، نامعلوم کتنے ہوں گے ، جو اپنے لہو سے وضو کرکے اس حال میں شہادت سے سرفرازہوئے کہ ان کے ساتھی بھی قبر کے نشان تک کو نہیں جانتے ، کتنے تھے جو وطن کی محبت میں لڑتے ہوئے دشمن کے اسیر ہوئے ،اور پھر کوئی خبر نہیں آئی، کتنے ہیں جو آج بھی دشمن کے عقوبت خانوں میں عزم وہمت کی چٹان بنے ، ستم سہتے ہیں ، روز ہی اپنے لہو سے وضو کرتے شہادت کے منتظر ہیں ۔کتنے ہی دوست ، جگری یار ، رشتہ دار اس راہ میں بچھڑ گئے ، کبھی یادوں کا دریچہ کھل جائے توآنکھیں بھیگ جاتی ہیں، راتیں بیت جاتی ہیں ، بچھڑنے والوں سے ’’ملاقاتیں ‘‘ختم نہیں ہوتیں ۔ کبھی کبھی تو یہ ملال تنہائی کے احساس کوناقابل برداشت بنا دیتا ہے کہ کارواں لد گیا اور ہم تنہا رہ گئے ۔ میرے رب کی قسم ہم آج بھی وہی ہیں ، ہمہ تن تیار، پابہ رکاب ۔موت کا خوف پہلے تھا نہ اب ہے ، موت کوئی اجنبی تو نہیں اس سے پرانا رومانس ہے ، دوبار گلے مل کر چھوڑ گئی ، یقین ہےجب تک رب کا حکم نہیں ہوگا ساتھ نہیں لے جائے گی اور جب حکم ہوگیا تو کوئی روک نہ پائے گا ۔
سیاست گئی جہنم میں ، کسے غرض کہ کون کسے کیا کہتا ہے؟ یہ آج کے حریف کب حلیف بن جائیں ، یہ خود بھی نہیں جانتے ، ایک دوسرے کے گریبان تارتار کرنے والے کس لمحے ایک دوسرے کے گلے کا ہار بن جائیں ، انہیں خود بھی معلوم نہیں ، لہٰذا ان کی حمائت یا مخالفت میں ایک جملہ بھی قلم کی توہین سمجھتا ہوں۔ اگر بات وطن پر آگئی تو کسی کا کوئی لحاظ نہیں ، اپنا وہ جو اس وطن کا ہے ، جو وطن کا دشمن وہ ہمارا دشمن چاہے کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو،پھر جنگ ہےتو جنگ ہی سہی ۔ سازشوں کو سمجھنا ،بے نقاب کرنا اور ناکام بنانا ہر وطن پرست کا ایمان ہے اور ایمان پر کوئی سودے بازی ممکن نہیں ۔ وطن کی جنگ میں سب کچھ قربان ، اور اگر بات دین کی آجائے ، آقا ومولا امام الرسل سیدنا حضرت محمدﷺ کی عزت ، حرمت اور ختم بنوت کے لئے میدان سج جائے تو پھر اس جنگ میں وطن بھی قربان ۔

گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں

بات واضح ہو چکی ، بھید کھل چکا ، کوئی ابہام باقی نہیں رہا کہ معاملہ سیاست کا نہیں ، لڑائی وطن کی ہے ، جن کو ہم سیاسی انتہا پسند خیال کرتے رہے ، وہ ذاتی مفادات اور شخصیت پرستی کی دھن میں وطن دشمنی پر اتر آئے ہیں، لہٰذا یہ کشمکش اب سیاست نہیں رہی ، جنگ ہے اور جنگ سے بھاگنا بزدلوں کا شیوہ ہے، ہمارا نہیں ، اب بات ہوگی اور دلیل کی تلوار سے ہوگی ۔ یوں تو مجیب بننے کے شوق سمیت بے شمار اقدامات ہیں ، جو حقیقت کو بے نقاب کرنے کو کافی ہیں ، لیکن چند روز قبل کلٹ کے ترجمان کی پریس کانفرنس کا کلپ سننے کے بعد پوری سازش ، پوری کہانی اپنی جڑ سے اٹھان تک سمجھ آجاتی ہے کہ مسئلہ کیا ہے ؟اور کہاں ہے ؟ ترجمان کی یہ پریس کانفرنس جو پوری کی پوری قومی الیکٹرانک میڈیا پرتو چلی لیکن اخبارات نے اس میں پوشیدہ زہرکو سمجھا اور کسی نےبھی اسے شائع نہیں کیا ،پرنٹ میڈیا کا یہ انتہائی ذمہ دارانہ اور دور اندیشی پر مبنی فیصلہ تھا ۔ یہ کالم بھی اس زہر کو نذر قارئین کرنے کا متحمل نہیں ، خلاصہ البتہ یہ ہےکہ۔۔۔ کہا گیا ’’ اس وقت بلوچستان آزاد کشمیر اور گلگت کے حالات بہت خراب ہیں جبکہ ’’کے پی‘‘ تو’’ اون دی ورج ‘‘ہے یعنی وہ تو بس الگ ہونے ہی والا ہے(خاکم بدن، روسیاہ ) ، دوسری خبر یہ دی گئی کہ کیا مستقبل کا پاکستان صرف دو صوبوں یعنی سندھ اور پنجاب تک محدود ہو گا۔ مطلب یہ کہ کے پی تو ’’اون دی ورج‘‘ ہے ہی، باقی تین مذکورہ علاقے بھی پاکستان سے الگ ہو جائیں گے۔ ‘‘اس پریس کانفرنس کو اس کلٹ کے سربراہ کی کئی بار کہی ہوئی اس بات سے ملا کر دیکھیں جس میں وہ کہتا ہے کہ ’’ پاکستان کے تین ٹکڑے ہو جائیں گے(خاکم بدن، روسیاہ )۔‘‘
ترجمان اور لیڈر کی گفتگو ذہن میں رکھتے ہوئے ، امریکی سی آئی اے کے اہم افسر رالف پیٹر کا لکھا مستقبل کا نقشہ پڑھیں ، جسے بلڈ بارڈر کے عنوان سے امریکی فوج کے ترجمان جریدے ’’ آرمڈ فورسزجرنل‘‘ نے جون 2006کو شائع کیا تھا ۔اپنے اس مستقبل سازی کے منصوبے میں امریکی سی آئی اے پاکستان کے بارے میں کیا ارادہ رکھتی ہے ، مطالعہ فرمالیں۔

What Afghanistan would lose to persia in the west ,it would gain in the east , as Pakistan `s north west frontier tribes(KPK) would be reunaited with their Afghan brethren (the point of this exercise is not to draw map as we would like them but as local populations would prefer them).Pakistan,an other unnatural stat,would also lose its baluch territory to Free baluchistan. the remaining “natural” paksitan would lie entirely east of the Indus.
(

افغانستان مغرب میں فارس ( ایران ) کوجو علاقے دے گا، اس کے متبادل اسے مشرق میں دیا جائےگا،پاکستان کے شمال مغربی سرحدی قبائل (اس وقت تک کےپی کےکایہی نام تھا) کو اپنےافغان بھائیوں کےساتھ ملایاجائے گا(اس مشق کا مقصدصرف ہماری خواہش پرنقشہ کھیچ دینانہیں ،بلکہ مقامی آبادی اسےترجیح دے گی)۔پاکستان جو کہ غیرفطری ریاست ہے، اسے آزادبلوچستان کےلیے اپنا بلوچ علاقہ کھوناپڑے گا۔ اس کےبعد بچ رہنے والا قدرتی پاکستان دریائے سندھ کے مشرق میں واقع ہوگا۔) سی آئی اے کا دماغ سمجھےجانے والے رالف پیٹر کی یہ منصوبہ بندی جب پہلی بار منظر عام پر آئی اس وقت ایک قومی اخبار میں اس کا ترجمہ بمعہ نقشہ شائع کرنے، سلسلہ وار کالم لکھنے ،رپورٹس اور ارباب دانش کی آرا ء شائع کرنے کی ذمہ داری میرے حصے میں آئی تھی ، اس وقت بلوچستان پرامن تھا ، ٹی ٹی پی نام کی کوئی شئے نہیں تھی ۔ بڑے شہ دماغ قسم کے دانشوروں نے بھی کہا کہ یہ بکواس ہے ، ایسا ممکن نہیں ، کوئی آثار ایسے دکھائی نہیں دیتے۔ پھر اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے ان تمام علاقوں میں دہشت گردی کی آگ بھڑک اٹھی جن علاقوں کو ان کے ممالک سے الگ کرنا سی آئی اے نے اس نقشے میں ظاہر کیا تھا ۔
ترجمان کی پریس کانفرنس میں ’’مستقبل کا پاکستان پنجاب اورسندھ پر مشتمل ہوگا‘‘ اور رالف پیٹر کایہ کہنا کہ
“the remaining “natural” paksitan would lie entirely east of the Indus”.
کیا محض اتفاق ہے ؟ جہاں تک گلگت کا معاملہ ہےتو یہ ’’درد پراناہے‘‘ بہت کچھ اس حوالہ سے میری یادداشتوں میں محفوظ ہے کہ 90 کی دہائی کے آغاز پر اس معاملہ میں کن بڑی شخصیات میں تنازع ہوا ، اور ان میں سے ایک کو امریکی خواہش پر کیا کیا نقصان اٹھانا پڑا ، اور پھر کس طرح قدرت نے پاکستان کی حفاظت کی ، میرا رب کبھی وقت لایا تو تاریخ کا یہ قرض ضرور چکایا جائے گا اورداستاں کھولی جائےگی ، انشااللہ ۔ سر دست اس سے زیادہ کہنے کا یارا نہیں کہ بھارت اور امریکہ کی پرانی خواہش ہے ، سی پیک کی سرگوشیوں سے بھی پرانی خواہش کہ ’’یہ چھوٹا سا علاقہ پاکستان سے الگ کردیا جائے تو چین کو بحرہند کے سارے علاقے سے کاٹاجا سکتا ہے، اس مقصد کے لئے کچھ لوگ خریدے گئے ،پالے بھی گئے ، ایک جماعت سامنے آئی جو گلگت تک محدود ہے اور جس کے لوگ گلگت کو الگ کرنے، اسے بھارت سے ملانے کا مطالبہ کرتے یا دھمکی دیتے رہتے ہیں۔ اسی جماعت سے منسلک عناصر اب آزاد کشمیر میں بھی شرانگیزی کی کوشش میں دکھائی دیتے ہیں ، لیکن ناکامی ونامرادی ان کا مقدر ہے ۔
اگر مان بھی لیا جائے کہ ترجمان اور رالف پیٹر کے موقف کی یکسانیت محض اتفاق ہے ، اور پاکستان کے یوم تکبیر کے موقع پر کلٹ لیڈر کی مجیب بننے کی خواہش ، اور اس پر اصرار جس میں اب سابق صدر عارفٖ علوی بھی شامل ہو چکے ہیں ، یہ بھی اتفاق ہی ہے ، تو اس کا کیا جواب ہوگا کہ کلٹ کے سوشل میڈیا کی ایک سپیس ڈسکشن میں ذمہ دران نے کھل کر اپنے ورکروں کو بتایا ہےکہ ’’ہماری لڑائی فوج سے ہے ۔‘‘ اسے بھی نظر انداز کردیا جائے تو اب اس کا کیا کریں گے کہ ’’ امریکہ میں پاکستان اور بھارت کےکرکٹ میچ کے دوران کلٹ پاکستان ، آرمی اور دیگر اداروں کے خلاف احتجاج کرے گا اور مہم چلائے گا ۔ آج تک ہماری آنکھوں نے پاک بھارت میچ کے دوران سٹیڈیم میں کشمیر کی آزادی اور بھارت کےخلاف نعرےلگتے دیکھے ہیں لیکن اب چشم فلک یہ نظارہ بھی دیکھے گی ۔ 8/9جون کو نیو یارک میں انڈیا پاکستان میچ سے قبل پاکستان مخالف احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے، نیویارک کی سڑکوں پر اور اسٹیڈیم کے باہر پاکستان کے اداروں کے خلاف اشتہاری ٹرک کھڑے کئےجائیں گے جن پرفوج اور آرمی چیف اور دیگر اداروں کے خلاف نعرے درج ہونگے۔ اس سے قبل بھارت یہ کام اپنی فنڈنگ یافتہ دہشت گرد تنظیموں BLA وغیرہ سےکروایا کرتا تھا ، اب ہندوتوا اور مودی کےعزائم ہماری یہ سیاسی اشرافیہ پورا کرے گی ،پھر بھی اصرار ہے کہ انہیں محب وطن ماناجائے ۔ معذرت، جناب زہرپینا ممکن نہیں ۔
بدقسمتی دیکھیے کہ بھارتی تارکین وطن اپنے ملک کی طاقت ہیں، بھارت میں سرمایہ کاری لانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ، دوسری طرف ہمارے یہ کلٹ بلکہ کلنک سے تعلق رکھنے والے اوورسیز ہیں، جوریاست اور فوج کے خلاف ملک دشمنوں کے پیادے بن چکے ہیں ۔ اگر اب بھی 9 مئی کے مجرموں کو سزائیں سنانے کے بجائے ، سہولت کاری جاری رہتی ہے تو پھریاد رکھیے ہم اپنے ہاتھ سے اپنے گلے کاٹنے کے لیے ایک اور مکتی باہنی تیار کر چکے ہیں۔ تاریخ کا سبق ہے کہ جہاں غدار طبعی موت مریں تلف نا کئےجائیں وہاں ریاستیں ابدی موت سلا دی جاتی ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانیت دشمنی کی تفصیل
From Jan 1989 till 29 Feb 2024
Total Killings 96,290
Custodial killings 7,327
Civilian arrested 169,429
Structures Arsoned/Destroyed 110,510
Women Widowed 22,973
Children Orphaned 1,07,955
Women gang-raped / Molested 11,263

Feb 2024
Total Killings 0
Custodial killings 0
Civilian arrested 317
Structures Arsoned/Destroyed 0
Women Widowed 0
Children Orphaned 0
Women gang-raped / Molested 0