ہفتہ‬‮   12   اکتوبر‬‮   2024
 
 

عدیلہ کی بازیابی،ماہ رنگ ٹولےکی بدحواسی ۔۔۔۔2

       
مناظر: 563 | 27 Sep 2024  

(گزشتہ سے پیوستہ)
بلوچ سرداروں اور بلوچستان کے نام کی  حقیقت یہ ہے کہ ون یونٹ ختم کرنے کے بعد 70 کی دہائی میں جب اس علاقے کو بلوچستان کا نام دیا گیا تو بلوچستان کے نصف سے زائد غیر بلوچ آبادی نے اس پراحتجاج کیا اور یہ تحفظات آج بھی قائم ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ حکومتی نام نہادبلوچ سرداروں کو ایک تو یہ خطرہ ہے کہ ریاست پاکستان کی عمل داری میں اضافہ ان کی سرداری کے خاتمے پر منتج ہوگا ، جس طرح کہ فاٹا کو ضم کیا گیا ہے ،بلوچستان میں بھی یہ بی ایریا ایک دن ریاستی بندوبست میں آنا ہے ، جس سے ان کی بادشاہت ختم ہوگی ، جسے بچانے کی جنگ وہ لڑ رہے ہیں اور عام بلوچ کو مروارہے ہیں ، دوسری جانب ان کے مفادات اور روابط انگریر دور سے ہی اڑوس پڑوس کے ممالک خصوصاً بھارت سےقائم ہیں ، لہٰذا ان ممالک کے مفادات بھی بلوچستان کے حالات پر اثرانداز ہو تے ہیں، جن میں بھارت باقاعدہ دہشت گردی کو سپورٹ کرتا ہے ، سر پرستی کرتا ہے اور ہر طرح کی مالی اور تکنیکی امداد فراہم کر رہا ہے ۔
یہاں پاکستان کی ایک غلطی کا اعتراف نہ کرنا بھی بددیانتی ہوگی ،بد قسمتی سے پاکستانی حکومتوں نے شروع سے ہی آسان راستہ چنا ، سسٹم میں انقلابی تبدیلیوں کے ذریعہ سے سرداری نظام کو اکھیڑ کر پھینک دینے کے بجائے ان کی دلجوئی کی راہ اختیار کی ا ور برطانوی استعمار کے نظام کو قائم رکھا ، بلوچ عوام کے لئے ترقیاتی منصوبوں سے لے کر سیاسی فیصلوں تک میں سب کچھ سرداروں کی وساطت سے کیا گیا ، جس نے بلوچ سرداروں کی طاقت کو بڑھایا اور عوام کے لیے متبادل قیادت کے راستے بند کردیئے ۔ سرداروں کی مکمل گرفت کی وجہ سے بلوچستان میں عوام کو انصاف، انتظامیہ اور مقننہ کی رسائی مشکل ہو گئی اور انہیں سردار ہی ریاست دکھائی دینے لگا ۔ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ابتدائی طور پر بلوچستان میں RAW، MI-6 اور دیگر غیر ملکی ایجنسیوں نے بھی سرداروں کو آن بورڈ لیا ، انہیں قوم پرستی اور علیحدگی کی راہ پر ڈالا ، سردار خود تو ہمیشہ محفوظ رہے ، آج بھی سوئٹزر لینڈ میں داد عیش دے رہے ہیں ، لیکن انہوں نے غیر ملکی ایجنسیوں کے ایما پر ایک منافع بخش کاروبار شروع کرلیا ، غیر ملکی ایجنسیوں سے بھاری رقوم لے کر پاکستان کے خلاف بغاوت کی جس میں عام بلوچ انہیں مفت کے سپاہی کے طور پر ہمیشہ دستیاب رہا ، آج بھی دستیاب ہے ، بعد میں پھر ریاست پاکستان سے بھاری معاوضہ لے کر صلح کا ڈھونگ رچایا ، مزید مراعات لیں ۔ عام بلوچ پھر محروم رہا ، اس کے دماغ میں یہ بات گھر کر گئی کہ اس کا مائی باپ ، ریاست ، مالک یہ سردار ہی ہے ، یوں بلوچ پستا اور سسکتا رہا ، سردار کی دولت کے انبار بڑھتے گئے ۔سرداروں کی دوغلی پالیسی اور بلوچ فروشی کی سب سے بڑی مثال اکبر بگتی اور اختر مینگل ہیں ۔ اکبر بگتی نے قیام پاکستان کے وقت پاکستان کی حمائت میں کردار ادا کیا ، بدلے میں ریاست نے اسے مالا مال کردیا ، یہاں  تک کہ سوئی میں محکمہ گیس کے ملازمین کی تنخواہیں بھی یک مشت اکبر بگتی کو دی جاتی تھیں ، اس کی مرضی کہ کسی کو کتنا دیتا ہے ، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی ایک بھی ایسا ملازم نہیں تھا ، جسے کبھی اس کی کل تنخواہ کا نصف بھی ملا ہو ۔ وہ نصف صدی تک اس سرکاری ملازمین کو ذاتی غلاموں کی طرح استعمال کرتا رہا ۔ 90 کی دہائی کے اختتام پرجب ریاست نے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے اور سرکاری ملازمین کو تنخواہیں از خود دینے کا فیصلہ کیا تو موصوف بگڑ گئےا ور 2002 میں مری قبیلے کے دہشت گردوں سے مل کر پہلا فراری کیمپ قائم کیا اور ریاست کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ۔المیہ یہ ہے کہ پاکستانی صحافت میں جو میرجعفر کی اولاد 1971 میں بھارت کے لئے کام کرتی رہی ، اسی کی نشانیوں نے بگتی کو بھی دیش بھگت بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ۔ اسے جب تک ریاست پاکستان بھتہ دے رہی تھی ، وہ محب وطن تھا ، جیسے ہی ریاست نے بھتہ بند کیا ، اس نے بندوق اٹھالی ، یہی کچھ 1947سے خدابخش مری اور عطاءاللہ مینگل اور اب ان کی اولاد کر رہی ہے ۔ اختر مینگل کو ہی دیکھ لیں ، اس کا بھائی جاوید مینگل لشکر بلوچستان نامی دہشت گرد تنظیم کا سربراہ ہے ، اختر مینگل پہلے خود ساختہ جلا وطنی کے نام پر باہر بیٹھارہا ، آصف زرادری نے پہلی بار صدر بننے کے بعد دہشت گردوں سے بات چیت کی کھڑکی کھولی تو مفاہمت کے نام پر وسائل سمیٹنے والوں میں سر فہرست یہی صاحب تھے ۔ اب ایک بار پھر ریاست نے اس دور کے وعدوں کا حساب مانگا اور اپنے ہی قبیلے کے، ان لوگوں کی زمینیں اور جائدادیں ہتھیانے کے عمل میں ساتھ دینے سے انکار کردیا ، جن کا واحد جرم اختر مینگل اور اس کے بڑوں کی ملک دشمنی کا مقابلہ کرنا ہے تو اختر مینگل صاحب ایک بار پھر روٹھ کر دبئی جا بیٹھے ہیں ۔
عدیلہ بلوچ ہو یا کوئی دوسرا عام بلوچ ، سرداروں کے لئے ان کے سر کٹوانے اور دولت کمانے کا ذریعہ ہیں اور بس۔ یہاں ریاست پاکستان اور حکومت بلوچستان سے بھی کہنا بنتا ہے کہ معاملات کو دوسری نظر سے دیکھیں ، دشمن کی چال کو سمجھیں، محب وطن سردار سرآنکھوں پر ، لیکن لٹیرے اور ملک دشمن سرداروں سے بات چیت کے دروازے بند کئے جائیں ،یہ کبھی سدھریں گے نہیں ، ان کے لئے دہشت گردی کاروبار ہے ، کبھی دہشت گردی کا بازار گرم کرکے پیسہ کماتے ہیں تو کبھی دہشت گردی روک کر مال بٹورتے ہیں ، ان کا واحدحل غیر مشروط سرنڈر ہے ، محب وطن قبائلی راہنمائوں جیسے شفیق مینگل ہیں دوسرے لوگ ہیں ، ان کی مدد کی جانی چاہئے اور دہشت گردی میں سرداروں کی آگ کا ایندھن بنائے گئے عدیلہ جیسے کرداروں کو ڈھونڈ کر زندگی کی جانب لایا جائے ۔ اس معاملے پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر نوجوان بی ایل اے جیسی دہشت گرد جماعتوں کے ہتھے کیوں چڑھتے ہیں ؟ لازم ہے کہ نوجوانوں کو انگیج کریں اور ان کی محرومیوں کا احساس دور کریں، سرداروں ک ی دہشت گردی اپنی موت آپ مرجائے گی ۔

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی انسانیت دشمنی کی تفصیل
From Jan 1989 till 29 Feb 2024
Total Killings 96,290
Custodial killings 7,327
Civilian arrested 169,429
Structures Arsoned/Destroyed 110,510
Women Widowed 22,973
Children Orphaned 1,07,955
Women gang-raped / Molested 11,263

Feb 2024
Total Killings 0
Custodial killings 0
Civilian arrested 317
Structures Arsoned/Destroyed 0
Women Widowed 0
Children Orphaned 0
Women gang-raped / Molested 0