سیف اللہ خالد/ عریضہ
بلوچستان میں دہشت گردی اور ریاست مخالف جنگ کے بانیوں میں سے ایک میر ہزار خان مری کی سبق آموز داستان حیات ’’مزاحمت سے مفاہمت تک ‘‘ کے بامعنی عنوان سے کتابی شکل میں سامنے آئی ہے ،یہ صرف میر ہزار خان مری کی سوانح نہیں ہے ، بلکہ اک عہد کی داستاں ہے اور پاکستان دشمن عناصر کی وارداتوں کی گواہی بھی کہ کس طرح سے پروپیگنڈے اور بعض مفاد پرست سرداروں کے ذریعہ سے بلوچستان کے نوجوانوں کو ورغلاکر دہشت گردی کا بازار گرم کیا جاتا ہے، لاشیں گرائی جاتی ہیں ، کون بہایا جاتا ہے۔ یہ کہانی تنہا میر ہزار خان کی نہیں ہے ، بلکہ ہتھیار اٹھا کر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی جنگ میں اترنے والے کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ ہے ، پاکستان دشمنوں کی مقاصد اور ان کے چہروں سے نقاب کی شناخت پریڈ ہے، شرپسندوں کے چنگل میں پھنسے نوجوانوں کے لئے اس میں سبق بھی ہے کہ وہ کون سے عوامل تھے ، جن کی بناپر میر ہزار خان دو دہائیاں دہشت گردی میں گزارنے کے بعد وطن پرستی کی جانب لوٹا اور مفاہمت سے اس عظیم کردار کو کیا کچھ عطاہوا۔ میر ہزار خان دہشت گردی کی قیادت کر رہا تھا تو روس اور بھارت کی آنکھوں کا تارا تھا ، لیکن اس نے دشمن کے اصل روپ کو دیکھ کر وطن پرستی کی راہ اختیار کی تو کون کون سےپچھتاوے لاحق ہوئے ؟ مداوا کیسے کرنے کی کوشش کی؟ یہ سب اس کتاب کا سبق ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اگر یہ کہا جائے کہ میر ہزار خان کی یہ داستان حیات بلوچستان میں دہشت گردی کرنے والے کرائے کے قاتلوں کے جعلی بیانیے کا سچا اور کھرا جواب ہے تو غلط نہ ہوگا ۔ میر ہزار خان مری کے پوتے بیورغ مری نے جس درد مندی اور ذمہ داری کے ساتھ اپنے دادا کی داستان کو منظر عام پر لانے میں کردار ادا کیا ہے ، وہ اس بات کی علامت ہے کہ میر ہزار خان مری نےجسے اس کی قوم’’ وڈو‘‘ یعنی سردار کے نام سے یاد کرتی ہے ، اپنی اولاد کی تربیت میں کوئی کوتاہی نہیں کی انہیں حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے اور سچ کو سامنے لانے کی خاطر ڈٹ جانے کی تعلیم دی ہے ۔ بقول اقبال ؒ
باپ کا عِلم نہ بیٹے کو اگر اَزبر ہو
پھر پِسر قابلِ میراثِ پدر کیونکر ہو!
میرہزار خان مری کی داستان حیات اس راز سے پردہ ہٹانےکی سہولت فراہم کرتی ہے کہ بلوچستان کیوں کئی دہائیوں سے بیرونی طاقتوں کی سازشوں کا مسکن بنا ہوا ہے؟۔ جس میں نہ سازش کرنے والوں کو کچھ ملا نہ بلوچستان کا کچھ بھلا ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح سےبلوچ نوجوانوں کے ذہنوں میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت نفرت بھری گئی کہ انکا حق مارا جا رہا ہے اور ریاست ان کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ حقیقت دراصل صرف اتنی ہے کہ بلوچ سرداری نظام کی بقا اسی سوچ میں ہے کہ بلوچ ریاست سے نبرد آزما رہیں اور سرداروں سے سوال ہی نہ کریں کہ جان توڑ محنت کے باوجود ان کے گھروں میں اندھیروں کا را ج اور کچھ نہ کرکے بھی وڈیرے کے محلات میں رنگ ونور کا سیلاب کیسے ؟ سیدھی سی بات ہے اگر بلوچ ریاست سے صلح کر لیں گے تو سرداری نطام کی بنیادیں ہل کر رہ جائیں گی ۔جہالت ، بے روزگاری بلوچ نوجوان کی سب سے بڑی دشمن ہیں اور وڈیرہ انہیں اس جہالت سے نکلنے نہیں دیتا تاکہ ان کا ہاتھ اس کے گریبان تک نہ پہنچ سکے ۔بلوچ مدت سے لڑ رہے ہیں، ان کی نسلوں کی نسلیں کام اچکی ہیں مگر اب انہیں امن کی طرف لوٹنا ہو گا۔بلوچوں کی بھاری اکثریت نےہمیشہ ریاست کے آئین کو تسلیم کیا ہے، مگر چند سرداروں نے ماضی میں ذاتی مفاد کے خاطر ریاست سے جنگ کا راستہ اختیار کیا ، جس کا نتیجہ صرف تباہی کی صورت نکلا۔روس کی افغانستان میں یورش سے بہت سے لوگوں نے گریٹر بلوچستان کے مذموم منصوبے کو ہوا دی۔ مگر روس کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی ان شرپسندوں کی کاروائیاں دم توڑ گئیں۔میر ہزار خان نے دو دہائیوں سے زیادہ ریاست سے جنگ کی ۔ افغانستان میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی ۔ سیکیورٹی فورسز پر بے شمار حملے کیئے ۔ لیکن جب دو دہائیوں کے بعد وطن واپس آئے تو پتہ چلا کہ ان کی جدوجہد بے ثمر تھی اور اسکا سب سے زیادہ نقصان بلوچوں کو پہنچا۔آخری عمر میں ہزار خان نے مفاہمت کا رستہ اپنایا ۔ جس کا فائدہ ان کے علاقے کوہلو ، بلوچوں اور ریاست پاکستان کو ہوا۔ہزار خان کو ساری عمر مزاحمت نے یہ سبق دیا کہ کہ کوئی بھی شرپسند گروہ چاہے وہ کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو ریاست سے زیادہ طاقتور نہیں ہو سکتا۔میر ہزار خان کی زندگی کا درس یہی ہے اس ملک میں رہنا ہے تو اس کے آئین کو تسلیم کرنا پڑے گا ۔ اسکی مٹی سے محبت کرنا پڑے گی ، اس کے شہیدوں کا احترام کرنا پڑے گا ۔
’’میر ہزار خان مری مزاحمت سے مفاہمت تک‘‘ کتاب کی تقریب رونمائی جمعرات کو اسلام آباد کے پاک چائنہ سنٹر میں ہوئی جس میں گورنر بلوچستان، وزیر اعلی بلوچستان، وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال، مری قبیلے کے سربراہ چنگیز خان مری ، مولانا عبدالغفور حیدری سمیت ملک کی اہم سیاسی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی۔کتاب “میر ہزار خان مری۔ مزاحمت سے مفاہمت تک” کے مصنف عمار مسعود اور اس پر تحقیق خالد فرید نے کی ہے۔یہ کتاب بلوچستان سیاسی منظر نامے میں لکھی ایک بائیو گرافی ہے جس میں ہزار خان کی زندگی کے تغیرو تبدل کے حوالے سے بلوچستان کی سیاست اور موجودہ حالات کی کشیدگی کا ذکر ملتا ہے۔ میر ہزار خان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جنہوں نے ہمیشہ ریاست کے خلاف مزاحمت کی۔ آئین کو تسلیم نہیں کیا۔ روس کی جارحیت سے متاثر ہو کر مری قبیلے کے لوگ افغانستان چلے گئے۔ بیس سال یہ پاکستان کے خلاف کاروائیاں کرتے رہے۔ روس کی تقسیم کے بعد یہ لوگ در بدر ہو گئے۔ نہ افغانستان ان کو قبول کرنے کو تیار تھا نہ پاکستان میں ان کے لئے گنجائش تھی۔ بے نظیر شہید کے دور حکومت ان لوگوں کے لیئے عام معافی کا اعلان کیا گیا۔ یہ وطن اس احساس سے واپس آئے کہ ان کی جدوجہد بے ثمر گئی۔ پھر ہزار خان نے ریاست سے مفاہمت کا سفر شروع کیاسیاست کو شیوہ بنایا ۔ تمام سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کی ۔ بلوچستان کی ترقی کے لیے بہت کام کیے۔ وقت ایسا بدلا کہ وہی ہزار خان جو ریاست کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے تھے انہی کے پوتے اب فوج میں اعلی افسر ہیں۔یہ کہانی ہے اس کتاب کی۔ بلوچستان کی سیاسی مدوجزر کی۔ نفرت سے محبت کی جانب سفر کی۔
تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتا نہیں
تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
مزاحمت سے مفاہمت تک
مناظر: 619 | 21 Sep 2024