سیف اللہ خالد
چینی بہت بردبار اور باوقار دوست ہیں ، انہوں نے دہشت گردی کو ہمارے ساتھ مل کر بھگتا ہے،لاشیں اٹھائی ہیں،حملے برداشت کئے ہیں ، مگر اف تک نہیں کی ، ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی بات کی ہے ، اور اپنی بات کو نباہ کر دکھایا ہے ۔ اب اگر چینی مہمان سکیورٹی کو سرمایہ کاری اور اندرونی استحکام کو ترقی کے لئے لازم وملزوم قرار دے رہے ہیں تو نہیں بھولنا چاہئے کہ لفظوں کے استعمال میں چینی انتہائی کفائت شعاری کی روایات رکھتے ہیں ، مختصر الفاظ میں کام کی بات کہہ کرخاموش ہوجانے کے عادی۔لہٰذا ، اس تھوڑے کہے تو بہت سمجھتے ہوئے ، جان لینا چاہئے کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور ہمارے مسائل کا کیا علاج تجویز کر رہے ہیں ۔ شبہ نہیں کہ جو بات آج بر سر عام سامنے آئی، کئی ماہ سے بندکمروں کے اجلاسوں میں زیر بحث تھی ۔ سیاسی انتشار اور اسے حاصل سہولت کاری اوراس کی ٹائمنگ پر صرف پاکستانی اداروں کی ہی نہیں دوست ممالک کی بھی گہری نظر تھی اور ہے ، جن کا مفاد ہمارے مفاد سے جڑا ہے ، جن کے مستقبل کے منصوبے ہماری خوشحالی سے منسلک ہیں ، وہ دیکھ رہے ہیں،اور باربار سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ انتشار پسند ٹولے اور اس کے سہولت کاروں کو ڈھیل آخر کب تک دی جائے گی ؟ بند کمروں اور ان کیمرہ اجلاسوں سے نکل کر یہ مطالبہ میڈیا تک پہنچایاگیا ہے تو اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہوگا ؟کہ پانی اب سروں کے اوپر سے گزر نے کو ہے ، اب بھی ریاست مستعد نہ ہوئی ، ہر طرح کے ملک دشمنوں کی لگامیں نہ کھینچی گئیں تو شائد بہت دیر ہوجائے،اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔
ایک جانب صورتحال یہ ہے کہ افغانستان اور ایران کی سرحدوں سے امڈ کر آنے والی دہشت گردی کی لہر نے صوبہ خیبر پختون کے قبائلی اضلاع اور بلوچستان کو خون میں نہلادیا ہے،دوسری جانب سیاسی انتشار پسندوں اور دہشت گردوں کی زبان ، بیانیے اور مقاصد میں حیرت انگیز مماثلت پیدا ہو چکی ہے ۔ جدید ترین امریکی اسلحہ سے مسلح دہشت گرد قتل وغارت ، خون ریزی اور بدامنی پھیلا کر ملک میں سرمایہ کاری ، ترقی اور خوشحالی کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری جانب انتشار پسند ٹولہ اسی امریکہ کی اشرافیہ سے مل کر ملک میں سرمایہ کاری اور ترقی کے راستے روک رہا ہے ،دونوں کا مقصد ایک ہے ، ملک کی اقتصادی ترقی روکنااور عالمی برادری میں بدنام کرنا ۔ نہیں معلوم کہ یہ محض اتفاق ہے یا پس پردہ کوئی کھیل کہ دہشت گردوں اور انتشار پسندوں کا بیانیہ اور الفاظ تک ایک ہیں ، ابھی ایک روز قبل ٹی ٹی پی کے ترجمان کا بیان جاری ہوا کہتا ہے ’’ہم جلد پاکستان کو فوج کے تسلط سے نجات دلوادیں گے۔‘‘ سوشل میڈیا سے لے کر پریس کانفرنسوں اور اسمبلیوں میں کی جانےوالی تقاریر دیکھ لیجئے یہی الفاظ یہاں بھی استعمال ہو رہے ہیں ۔ حد تو یہ کہ دونوں کے سہولت کار بھی مخلتف نہیں ، مہہ رنگ بلوچ سے لے کر لاپتہ افراد کے نام پر دہشت گردوں کے کیمپ آباد کرنے والوں تک کے لئے جو لوگ میڈیا اور نظام انصاف سمیت مختلف حیثیتوں میں سہولت کاری کرتے دکھائی دیتے ہیں ، وہی انتشار پسندوں کے بھی ہمدرد اور سہولت کار ہیں ۔ مکرر عرض ہےکہ نہیں معلوم یہ سب اتفاق یا پس پردہ کوئی کھیل ؟ دہشت گردوں اور انتشاریوں میں سے کون کس کی پیروی کر رہا ہے ، یا کون کس کا راہنما ہے؟ اس کا جواب بھی معلوم نہیں۔ ایک بات البتہ یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اب بھی کوئی ایکشن نہ لیا گیا ، دہشت گردوں،انتشار پسندوں اور ان کے سہولت کاروں پر سخت ہاتھ نہ ڈالا گیا تو پھر شائد وقت ہاتھ سے یوں سرک جائے جیسے کہ بندمٹھی میں سے ریت۔
کوئی دوسری رائے نہیں کہ دہشت گردی کا ناسور جب سیاسی مقاصد اور مفادات کے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے ، دہشت گردوں اور سیاسی مفاد پرستوں کی زبان اور الفاظ ایک ہوجائیں تو پھرریاست کی مصلحت پسندی جرم بن جاتی ہے اور ذمہ داران کو تاریخ کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتی ہے ۔وقت کا تقاضہ اور حالات کا مطالبہ ہے کہ ملکی مفاد اور ملک دشمنی کے درمیان ایک لکیر کھینچ دی جائے اور ہر ملک دشمن کو اس کی شناخت ، مقام اور منصب کی پروا نہ کرتے ہوئے نشان عبرت بنادیا جائے ، کہ ملک اور ریاست سے بڑا اور محترم کوئی نہیں ۔ درایں حالات ’’عزم استحکام‘‘ کے نام سے دہشت گردی اور ملک دشمنی کے خلاف آپریشن کا اعلان بر وقت نہیں،بلکہ دیر آئید درست آئید کے مصداق، کیا گیا فیصلہ ہے۔ اب اس میں کسی اگر، مگر ، چونکہ، چنانچہ کو آڑے نہیں آنے دینا چاہئے ۔ اب وقت کی باگ ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے ۔
دہشت گردی کا مقابلہ بلکہ صفایا پاکستانی اداروں کے لئے کوئی نیا کام نہیں ، یہی ہدف ہم آپریشن ضرب عضب کے نام سے پہلے حاصل کر چکے ہیں ، انتشار پسند اگر اپنے مضموم مقاصد اورمفادات کی خاطر دہشت گردوں کو معافیاں دے کر جیلوں سے رہا نہ کرتے،انہیں’’ شریف اور پرامن لوگ ‘‘قرار دے کر سرحدوں سے اندر گھسنے کی اجازت نہ دیتے تو حالیہ دہشت گردی کی لہر کا جواز ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نئے آپریشن کے ایس او پیز تیار کرتے وقت کسی قسم کی مصلحت کو آڑے نہ آنے دیا جائے ،سب سے پہلے2020میں دہشت گردوں کی سہولت کاری کرنے والوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات قائم کرکے انہیں کٹہرے میں لایا جائے، اگر قانونی اور آئینی استثنیٰ آڑے آئے تو پارلیمنٹ کس مرض کی دوا ہے ؟دوسری جانب مقننہ اور عدلیہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی صفوں کو درست کریں اور دفاع وطن کی اس جنگ میں اپنا کردار ادا کریں ۔ بجٹ کے اعداد وشمار کو دیکھا جائے تو عدلیہ اور مقننہ ہی ہیں ، جو ملک میں سب سے زیادہ مراعات اور مشاہرے کی حقدار ہیں ،لازم ہے کہ وطن کی جنگ میں بھی مغربی دارالحکومتوں اور این جی اوزکی خوشنودی کے بجائےان مراعات اور مشاہروں کا حق ادا کریں ۔
پاکستان ربع صدی سے مخصوص جنگی حالات کا شکار ہے اور المیہ یہ ہے کہ مقننہ اور عدلیہ نے ایک بار بھی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے ، حالات کی مناسبت سے اپنا کردار ادا نہیں کیا ۔ جان جوکھوں میں ڈال کر ، موت سےپنجہ آزامائی کرکے دہشت گرد وں کا سراغ لگانے اور انہیں گرفتارکرنے والےروزانہ کٹہرے میں کھڑے اپنے جرم وطن پرستی کی سزا بھگت رہے ہوتے ہیں جبکہ دہشت گردوں، تخریب کاروں اور ملک دشمنوں کو انسانی حقوق کی آڑ میں ہرو بنادیا جاتاہے۔ معصوم انسانوں کے قتل عام میں ملوث کردار میڈیااور دیگرسہولت کاروں کی مدد سے بودے اور ناکارہ نظام سے سہولت پاکر نکل جانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح کچل ڈالنے اور قتل عام کے مرتکب مجرموں کے خلاف عمومی حالات کے لئے بنے قانون شھادت کے معیار پر پورا اترتے گواہ کہاں سے آئیں گے ؟جب دہشت گردوں کی تلاش کے لئے جدید ذرائع استعمال کرنے پر عدالتیں پابندیاں عائد کریں گی، تفتیشی مقاصد کی خاطر بھی مواصلاتی کمپنیوں کو دیٹا شیئرنگ سے حکماً روک دیا جائے گا، دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے والوں کو روزانہ کٹہرے میں بلا کر رسوا کیا جائے گا ،دہشت گردوں اور انسانی حقوق کی آڑ میں دہشت گردوں ، ملک دشمنوں اور ان کے سہولت کاروں کو ہیرو بنایا جائے گا تو دہشت گردی کے خلاف آپریشن کس طرح سے کامیاب ہوگا ، دہشت گردی کا خاتمہ کس طرح سے ممکن ہو سکے گا ۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے درست نشاندہی کی ہے کہ ’’ عدلیہ اور مقننہ کو بھی اپنا کردارادا کرنا چاہئے ۔‘‘ سارا مسئلہ ہی اس ’’چاہئیے ‘‘ میں ہے ۔ مقننہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ فوری طور پر قانون سازی کرے ، دہشت گردی کے خلاف آپریشن کو قانونی تحفظ فراہم کیا جائے اور پکڑے جانے والے دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر کے لئے خصوصی قانون سازی کی جائے تاکہ عدالتی نظام کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر یہ ملک دشمن بچ نکلنے میں کامیاب نہ ہو سکیں ۔ جب تک پورا ملک ، پوری قوم ، ہر ادارہ اور ہر قانون دہشت گردی کے خلاف حرکت میں نہیں آئے گا ، امن قائم نہیں ہو سکے گا ، ترقی اور خوشحالی نہیں آئے گی ۔
عزم استحکام
مناظر: 903 | 24 Jun 2024